نواز شریف کی بیان نے بلوچ قومی موقف پر مہر تصدیق ثبت کردی – خلیل بلوچ

357

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کے اعترافی بیان نے بلوچ قومی موقف پر مہر تصدیق ثبت کردیا ہے، بلوچ قیادت گزشتہ اٹھارہ سالوں سے کہہ رہا ہے کہ پاکستان ایک ناسور ہے جو بلوچستان پر اپنے قبضے کو طول دینے اوردنیا کو بلیک میل کرنے کے لئے مذہبی جنونیوں کو استعمال کر رہا ہے۔ اس کے اثرات صرف بلوچستان تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ خطہ سمیت پوری دنیااس کی لپیٹ میں آجائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ سرحدوں اور اثاثوں کو اسی طرح باقی رہنے دیا تو اس خطہ سمیت پوری دنیامیں امن کا خواب ایک خواب ہی رہے گا۔ ان اثاثوں میں ایٹم بم اورایٹم بم سے زیادہ خطرناک اسلامی شدت پسندی کی ذہنیت، دہشت گردی کے مراکز موجود ہیں جنہیں پاکستان بلوچ قومی تحریک کے خلاف سمیت دنیا اورخطہ میں استعمال کرتا رہتاہے اور پاکستانی فوج میں بھی مذہبی جنونیت پر مبنی سوچ کا غلبہ ہے۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ ہم بہت پہلے اس ناسور کی تشخیص کرچکے تھے مگر عالمی طاقتیں علاج کے بجائے اپنے وقتی مفادات کی خاطر پاکستان کو مالی اور عسکری امداد سے نوازتے رہے اور پاکستان اس امداد کو بلوچ قوم، مظلوم پشتونوں سمیت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف اتحادیوں کے خلاف استعمال کرتا رہا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جاری پاکستانی ریاستی دہشت گردی اپنے عروج پر ہے اور بلوچ قوم کے خلاف اس غلیظ جنگ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ملنے والے جدید عسکری سازوسامان اور ٹیکنالوجی کا استعمال ہورہا ہے۔ کئی مقامات پر بمباری کے بعد امریکی آلات کے ٹکڑے اور نشانات پائے گئے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہیں کہ امریکہ اور اتحادیوں کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملنے والی امداد دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ بلوچ قوم کے خلاف استعمال ہوتا رہاہے اور دوسری طرف پاکستان کے پراکسی جنونی تنظیمیں آزادی سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ طالبان کو ’’ اچھے اور برے‘‘ میں تقسیم کرکے ان کی بھرپور مدد کی گئی اور آج طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان پاکستانی فوج کی جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) میں آرام کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے بر عکس عالمی مطلوب دہشت گرد اسامہ بن دلادن کو نہ صرف چھ سالوں تک کاکول کے فوجی اکیڈمی میں رکھا گیا بلکہ نشاندہی میں مدد کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو کال کوٹھریوں میں رکھا گیا ہے۔

خلیل بلوچ نے کہا کہ اب ہمارے موقف کی تصدیق خود پاکستان کے موجودہ اور سابقہ سیاسی حکمران اور فوجی قیادت کر چکی ہے۔ جنرل مشرف نے کئی دفعہ طالبان، لشکر طیبہ اور خود حافظ سعید کو اپنا دوست اور اثاثہ قرار دیا ہے۔ سرتاج عزیز نے امریکہ میں علی الاعلان کہا کہ ہم طالبان کی مدد کرتے رہے ہیں،انہیں مختلف شہروں میں تحفظ اور علاج معالجہ کی سہولت فراہم کر چکے ہیں۔

اب پاکستان کے انگریزی اخبار ’’ڈان‘‘ میں تین دفعہ وزیراعظم منتخب ہونے والے نواز شریف نے اعتراف کیا کہ بمبئی حملوں میں ملوث مجرم پاکستان سے وہاں جاکر ڈیڑھ سو سے زائد انسانوں کا قتل کر چکے۔ اس سے پہلے نوے کی دہائی میں نواز شریف نے ایک انگریزی اخبار میں انکشاف کیا تھا کہ فوج اور آئی ایس آئی نے مجاہدین کی تربیت کیلئے مجھ سے رابطہ کیا اور انہیں فنڈنگ کیلئے سرکاری خزانے کے بجائے منشیات کے کارو بار سے رقوم دلانے کا منصوبہ بنایا۔

انہوں نے کہاکہ دہشت گردوں کی تربیت اور انہیں ہمسایہ ملک افغانستان اور بھارت میں کارروائی کے لئے بھیجنے سمیت پاکستان نے اس دنیا میں منشیات کا زہر پھیلانے کا کارنامہ سرانجام دیا۔ یہ سب پاکستانی حکمرانوں کی رضامندی میں فوج کے ذریعے کیا گیا جو ہنوذ جاری ہے۔ کوئی اس خام خیالی میں نہ رہے کہ پاکستان کا وجود ہوتے ہوئے خطہ اور دنیا پر امن ہوگا۔ امریکہ نے سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کئے مگر پاکستان کی مداخلت و دوغلی پالیسی کی وجہ سے افغانستان میں کامیابی حاصل نہیں کی اگر امریکہ اور اتحادیوں نے ہوش کے ناخن نہیں لئے تو افغانستان میں ان کا حشر سوویت یونین سے مختلف نہیں ہوگا۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ سی آئی اے کے سابق سربراہ Michael Hayden نے اپنی نئی کتاب Palying to the Edge میں انکشاف کیا ہے کہ اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا نے بھی اس جرم کا اعتراف کرکے کہا ہے کہ ایجنسیوں کے ریٹایرڈ ممبران ممبئی حملوں میں شریک لوگوں کی ٹریننگ میں ملوث ہیں مگر وہ ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتے۔ سابق سی آئی اے سربراہ نے کہا ہے کہ پاکستانی رہنماؤں نے دوغلی پالیسی اپنائی ہیں اور وہ دہشت گرد گروہوں خصوصاََ القاعدہ، طالبان، لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی نہیں کرتے۔

چیئر مین خلیل بلوچ نے کہا کہ اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ ٹھٹھہ میں ان لوگوں کی ٹریننگ ہوئی ہے گوکہ یہ سب چیزیں ان حکمرانوں کو پہلے سے معلوم تھیں لیکن فوج کے ساتھ کشمکش کے بعدمستقبل میں ان کے برسر اقتدار ہونے کے امکانات کم ہوتے جارہے ہیں اور وہ طیش میں آکر یہ راز افشا کر رہے ہیں مگر ہم نہیں سمجھتے کہ دنیا غفلت کا شکار ہے مگر یہ ضرور جانتے ہیں کہ وہ مصلحت کا شکار ہیں۔ انہیں بلوچ قومی طاقت اور آزاد بلوچستان پر یقین کرنا چاہئے اور ان کے خلاف جد و جہد میں ہمارا ساتھ دیں۔ بلوچ قوم پاکستان کی تربیت یافتہ مذہبی شدت پسندوں کی تن تنہا مقابلہ کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان ساری حقائق کے باوجود اگر پاکستان کے بارے میں عالمی پالیسیاں نہیں بدلی گئیں اور مذہبی دہشت گردوں کو لگام نہیں دیا گیا تو خطہ میں امن ناممکن ہوگی۔ خطہ میں امن کیلئے ضروری ہے کہ بلوچ قومی تحریک کی حمایت کر کے آزاد بلوچستان کی تشکیل میں ہمارا ساتھ دیا جائے۔ آزاد بلوچستان خطے میں بفر اسٹیٹ کا کام کرکے امن کی ضمانت ثابت ہوگی۔