موجوہ صورتحال پر میرا نقطہ نگاہ
کما ل بلوچ وائس چیئرمین بی ایس او آزاد
کوریا کی سر زمین ایسی جگہ واقع ہے، جو جاپان اور چائنا کے وسط میں ہے۔ ایسی سر زمین جس کی سر حد ایسی جگہ پر ہے جو خو د نظریے کے نام پر سامراج ہے، تو ان سے خیر کی توقع نہیں ہونا چاہیئے۔ تا ریخی پس منظر میں نہیں جاتے ہیں، سمجھنے اور سمجھانے کی کو شش کرتے ہیں۔ یہ تضاد دو نظریات کے بنیاد پر رونما ہوا، ایک تو کمیونزم کے نام پر اور دوسرا سرمایہ داری کے نام پر تقسیم کا شکار رہے ہیں اور اسی طر ح انکی تقسیم بھی خو ن آلود رہی ہے۔ تضاد ہر وقت خو ن آلود ہوتی ہے۔ کو ریا کی مختصر تاریخِ تقسیم اس طر ح ہے ۔
The Korean conflict is based on the division between the Democratic People’s Republic of Korea in the north and the Republic of Korea in the south, both of which claim to be the government of the entire peninsula. During the Cold War, North Korea was backed by the Soviet Union, China, and other communist states, and South Korea was backed by the United States and its allies. The division of Korea occurred at the end of World War II in 1945, and tensions erupted into the Korean War in 1950. When the war ended, the country was devastated, but the division remained. North and South Korea continued a military standoff with periodic clashes. The cold civil war survived the collapse of the Eastern Bloc of 1989 to 1991.
مختصر اور مکمل تا ریخ جو چند الفاظ میں قید ہے، یہا ں ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کو کس طر ح تقسیم کیا گیا ہے۔ مو قع سے فائدہ بھی اٹھایا گیا ہے لیکن اس وقت انکے درمیان مختلف لو گ آئے لیکن اصل مسئلہ حل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ یہ کچھ تا ریخی باتیں ہیں جو ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں۔
The US maintains a military presence in the South to help deter any potential attack from the North. In 1997, U.S. President Bill Clinton described the division of Korea as the “Cold War’s last divide”. In 2002, U.S. President George W. Bush described North Korea as a member of an “Axis of Evil”. Facing increasing isolation, North Korea developed missile and nuclear capabilities; however, in the wake of the historic Panmunjom Declaration, signed between the two Koreas on 27 April 2018, North Korea appears to be committing to a policy of denuclearization and plans of creating a peace treaty to officially end of Korean War later in 2018.
باوجود اسکے، اس وقت کچھ تبد یلی انکے درمیان ہوئی۔ یہ تبدیلی جنوبی اور شمالی کوریا کیلئے بہت اہم نظر آتی ہے کیونکہ وہ ایک ہی قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک زبان،ثقافت، کلچر اور ایک ہی تہذیب کے مالک ہیں۔ ایک دوسرے کے اپنے ہیں اور دشمن بھی ہیں۔ جو سرحد کھینچی گئی ہے، اُسے کوئی بھی پار نہیں کرسکتا، لیکن اب جو ڈوپلپمنٹ رونما ہوئی، یہ قومی فائدہ میں آتا ہے۔ دونو ں رہنماؤں کے درمیان لمبی ملاقات سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ یہ سوچ انکو نزدیک لارہی ہے۔ ان کے تضاد اور تقسیم میں امریکہ اور چین کا رول اہم رہا ہے، جو انہیں اپنی مفادات کے لیئے استعمال کرتے آرہے ہیں، جو تاریخ میں موجود ہے۔
یہ بحث آج بھی مو جو د ہے کہ جنو بی کوریا کی امریکہ سے نزدیکی، شمالی کو ریا کا چائنا سے قربت؛ لیکن اب دونو ں نے مشروط یا غیر مشروط بنیادوں پر ایٹمی ہتھیاروں پر بات چیت کے لیئے رضا مندی ظاہر کی ہے۔ یہ خود ایک بڑی پیشرفت ہے۔ اب دونو ں کی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے۔ جنو بی کور یا یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ وہ امریکی فو ج واپس کریں۔ گوکہ شمالی کوریا میں اشمالیت رائ ہے اور جنوبی کوریا میں سرمایہ دارانہ نظام کا طوطی بولتا لیکن انکی قومی ساخت ایک ہے، انکی زبان، ثقافت،انکی تہذیب ایک ہے، جہاں کوریائی تضاد کی بنیاد پر دس لاکھ کوریاؤں کی ہلاکت اور اسکے بعد ایک دوسرے کے خلاف نہ رکنے والی نفر ت حدسےزیا دہ ہے، جس کی بنیاد پر انکے تعلقات قائم نہیں ہو سکے ہیں لیکن آج جنو بی اور شمالی کوریا کے رہنما کم یونگ ان اور مون کوریائی خطے کے جوہری ہتھیاروں پر بات کرنے پر متفق اور اپنے تضادات پر بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ یہ بات اب عالمی مباحث کا حصہ بن چکی ہے، شمالی اور جنوبی کوریامیں یہ تبدیلی ایک مضبوط کوریا کی سو چ کو پیدا کرسکتا ہے۔
جب سیاسی صورتحال پربحث ہو تی ہے، تو دنیا کی سیاسی صور ت حال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ دنیا کی سیاست اور ملکوں کے تعلقات سیاست کے رُخ کو بدلتے ہیں۔ ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا ہوگا۔ معاشی خو شحالی تب ممکن ہو جاتاہے جب آپ کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔ اس وقت دنیا کی سیاست صرف ایک چیز پر نظر آتی ہے کہ تضاد کی طرف کم جانا بلکہ بات چیت کو اولیت دینا ہے۔ جب ضرورت پڑ ے تو جنگ کے آپشن کو استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنی حیثیت کو منوانے میں کامیاب رہیں۔ یہ وہی چیز ہے، جس کی بنیاد پرممالک اپنے سرحدوں کو تحفظ دیتے ہیں اور ساتھ ہی اس نقطے کو استعمال کرتے ہوئے، اس وقت ڈپلومیسی کے ذریعے رابطے بھی رکھتے ہیں۔ یہ عمل وہی طاقت دُہراتے ہیں، جو برابر کے طاقت کا مالک ہوتے ہیں۔
اس صورتحال کو سمجھنے کیلئے جائزہ لیں کہ بلوچستان میں کچھ سیاسی ناپختہ لوگ قوم کو دھوکہ دینے کے لیئے ہجوم کواستعمال کرنے میں پیش پیش ہیں۔ پاکستانی فوج اس کھیل کا اہم کھلا ڑی ہے، جو اس میدان میں ان کو کھیلنے کیلئے بھیج رہا ہے۔ پاکستا ن اپنے چلے ہوئے کارتوسوں، کو اس وقت ری فل کرکے استعمال کرتا ہے جب ہر جگہ ناکامی کا سامنا ہو جاتا ہے۔ میں یہاں یہ بات کہنے میں بجا ہوں کہ بی این پی مینگل اور اختر مینگل وہی کارتوس ہیں، جنہیں پاکستان نے 1998کو استعمال کرکے پھینک دیا تھا۔ یہاں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اختر مینگل کی پارٹی بی این پی فوج کے رہنمائی کے مطابق اسماعیل گجر جیسے لوگوں کو پارٹی میں شامل کررہا ہے۔ یہ خو د سوالات کی انبا ر کھڑ ی کر رہا ہے۔ جس طرح ڈاکٹر مالک اور ثنا ءاللہ زھری استعمال ہوئے، ان کا حشرسب کے سامنے ہے۔ ایسے لوگ اپنے مفا دات کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
یہ جو ساحل اور وسائل کی رٹ لگائے ہوئے ہیں ، اصل میں وہ ان کھوکھلے نعروں سے اپنے لیئے راہیں کھولنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ اخترمینگل جوروز اول سے لاکھوں کے حساب سے قیمتی پتھروں کو وڈھ اور وہیر کے پہا ڑوں سے نکال کر آسان داموں میں بیچ رہاہے۔ یہ صرف اپنے ایسے مفادات کو تحفظ دینے کیلئے ریاست کےساتھ تعلقات اپنا رہےہیں۔ اس وقت وہ خود بھی اسی پارلیمنٹ کے ممبرہیں جو بلوچ نسل کشی میں سب سے آگےہے۔ ان سے تو ہزارہ کے وہ رہنما طاہر خان ہزارہ بہتر ہیں، جو میڈیا کے سامنے بلوچستان کی حقیقی صورتحال پر کھل کر بات کرتا ہے کہ ’’ہماری نسل کشی اسلیئے ہورہی ہے تاکہ بلوچوں کے حقوق کے جنگ کو کاونٹر کیاجاسکے‘‘۔ یہ تاریخی کلمات ہیں۔ طاہر خان نے بلوچستان میں رہنے کا حق تو ادا نہیں کیا ہے لیکن اقلیت ہونے کے ناطے ان رہنماؤں سے بہتر ہیں کہ ایک حقیقی بات دنیا کے سامنے لا ئے ہیں۔ ہمیں ہزارہ قتل عام پر افسوس ہے لیکن انکا بھی فرض بنتا ہے کہ بلو چستان کے تحفظ کے لیئے اپنا حق ادا کریں کیونکہ وہ بلوچستان کے شہری ہیں۔
بلوچستان کی تا ریخ جنگ کیلئے بہت مشہو ر ہے، اپنے ننگ و ناموس کے لیئے بلوچوں نے سروں کی قربانی دی ہے۔ دوسروں کی عز ت بھی بلوچوں کو عزیز ہے۔ کو ئٹہ پریس کلب کے سامنے ہزارہ بیٹی جلیلہ حیدر کی تا دم مرگ بھو ک ہڑتال درست تھا کہ پاکستانی جبر کے خلاف خود کو قربا ن کریں۔ جہاں سیاسی شعور موجو د رہے وہاں مردوزن دونو ں اپنے قوم کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ جلیلہ حیدر کا ہزارہ برداری کے قتل عام کے خلاف تادم مر گ بھوک ہڑتال شروع کرنا بہتر سیاسی پیش رفت تھا لیکن پاکستان نے جس چالبازی سے اسے جلد ہی ختم کرایا، وہ آنے والا وقت فیصلہ کرے گا۔ جلیلہ حیدر نے جو کلمات سرفراز بگٹی کے سامنے پیش کئے وہ دلیرانہ تھے’’ تم لو گ بے اختیا ر ہو، یہا ں آنا آپ کی مہربانی ہے مگر اس بات کو سمجھیں کہ یہ ملک اب ناکام ہوچکی ہے، جس ریاست کے 80ہزار لوگ مارے جائیں اُس ریاست کا قائم رہنا خود ایک سوالیہ نشان ہے‘‘۔ ’’کو ئٹہ میں ہزارہ برداری کے تین ہزار لوگ قتل ہوئے ہیں جنہوں نے ایک قبرستان آبادکی ہے‘‘۔ 2001سے انکا قتل عام شروع ہوا۔ محترمہ جلیلہ حیدر کا آرمی چیف سے بغیر یو نیفارم کے آکر بیواؤں کا حال پوچھنے کا مطالبہ غلط تھا۔ وہ وردی میں ہوں یا بغیر وردی کے۔ وہی ہزارہ برادری کی قتل عام و نسل کشی میں فوج براہ راست ملوث ہے۔ یہ مذہبی دہشت گرد سیدھا کو ئٹہ کینٹ سے آکر ان لوگو ں کو قتل کرکے چلے جاتے ہیں۔ اس سے ہر باشعورشخص واقف ہے لیکن ہم یہ پہلودیکھیں کہ جب بلوچ تحریک آزادی نئے انداز سے 1997میں منظر عام پرآئی، جو چلتے چلتے طا قتور ہوئی، تو ریا ست پاکستان نے اس جدوجہد کو کاونٹر کرنے کیلئے کوئٹہ میں ہزارہ برداری اور مسیحی برداری کا قتل عام شروع کیا۔ اس میں فو ج براہ راست ملوث ہے کیونکہ بلوچ جدوجہد کو کاونٹر کرنے کیلئے آسان ٹارگٹ ہزراہ اور مسیحی برادری ہی ہیں۔ بلو چستان میں رہنے والے مظلوم لوگو ں کو چاہیئے کہ اس وطن کی تحفظ کے لیئے بلوچ کا کردار ادا کریں تو ان نام نہاد پاکستان کے پالے ہوئے دہشت گردوں کو روک سکتے ہیں۔
بلوچستان کے حقیقی وراث خود اس وقت ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں، بلوچستان میں ریاستی دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔ حتیٰ کہ بچے اور بزرگ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ 0 9 سالہ بزرگ محمد امین اور اُنکے کمسن نو اسے کو فو ج نے گھرسے اٹھاکرغائب کیا، جسے ذہنی اور جسمانی تشد د کا نشانہ بنایا گیا۔ جو لوگ انکی تشدد خانو ں سے زندہ رہا ہوئے ہیں وہ اپنی ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ حال ہی میں سوشل میڈیا سے موصو ل ہونے والی خبروں کے مطابق؛ اسی ہفتہ طویل عرصے سے غائب مشکے کے رہائشی حب چوکی سے بازیاب ہوئے اور تربت اور مند سے بھی کچھ لوگ بازیاب ہوئے ہیں، جو طویل عر صے سے پاکستان کی خفیہ ٹارچر سیلوں میں بند تھے لیکن رہائی کے بعد انکی دماغی توازن صحیح نہ ہونے کا ذکر ہورہا ہے۔
جس طرح جھاؤ میں گذشتہ سال شروع ہو نے والا فوجی آپریشن اب تک جاری ہے، جہاں سے سینکڑوں لوگوں کوغائب کیا گیا ہے اور اب بھی آپریشن تیزی کے ساتھ برقرارہے۔ نہتے آبادیو ں میں گھروں کو جلا نے اور بلڈوز کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور اغوا نما گر فتاری بھی برقرار ہے۔ اگر پا کستانی فو ج کہتا ہے کہ یہ ترقی مخالف ہیں، انکے خلاف فوجی کاروائی کر رہاہوں، تو میڈیا میں آکر یہ کہیں کہ کس کس کے گھروں کو جلایا گیا ہے اور کن کن کو گر فتار کرکے لے گئے ہیں۔ وہ جرات بھی نہیں کرسکتا ہے، پاکستان ہر طرح کے غیرانسانی سلوک کرتا رہتا ہے۔
پاکستان گو ادر کو ترقی کا شہہ رگ کہتا ہے۔ وہاں کے لوگ بنیادی سہولیات، جیسے کہ صحت اور تعلیم نہیں مانگ رہے ہیں بلکہ زندہ رہنے کیلئے پانی مانگ رہے ہیں۔ وہ بھی نہیں دی جارہی ہے۔ گوادر میں پانی کی شدید قلت برقرارہے، جسکی وجہ سے گوادر کے لوگ روڈوں پر کھڑے ہوکر گاڑیوں سے پانی مانگتے ہیں۔ جو آبادکار وہاں سےگذ رتے ہیں، انکے پھینکے ہوئے منرل واٹرکی بوتلیں اکھٹی کرکے بوند بوند چوس کر اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طر ح گودار ترقی کی تصویر نظر آتا ہے، لیکن اُس تصویر کا دوسرا رخ کوئی نہیں دیکھ رہا، جہاں نہتے لوگ کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور پانی کی بوند بوند کیلئے ترس رہے ہیں۔