منظور پشتین بلوچوں کا مرکزِ توجہ کیوں؟
تحریر: برزکوہی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم
پشتون تحفظ موومنٹ کے قیام کا مقصد، وجود اور پروگرام بظاہر تو ظاہر ہیں لیکن اندورونی طور پر کیا ہیں، فی الحال کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔ ہاں، البتہ منظور پشتین اور پشتون تحفظ موومنٹ کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیسا ہوگا؟ یہ اور بات ہے، لیکن اسکے وجود سے وابستہ مثبت اور فائدہ مند امر یہ ہے کہ پشتون قوم میں پشتون قوم پرستی، پاکستانی ظلم و جبر کے خلاف نفرت اور ایک نئی سوچ پیدا ہوگی۔ جو کسی بھی وقت ایک واضح رخ اختیار کرسکے گی۔ اس حد تک میں خود ذاتی حوالے سے موجودہ پشتون تحفظ موومنٹ کی بحثیتِ ایک مظلوم تحریک کے حد تک ضرور حامی ہوں۔ مگر منظور پشتین اور پشتون تحفظ موومنٹ کو اپنا مسیحا، نجات دہندہ اور سہارا سمجھ کر دل و دماغ میں بٹھانا بحثیت بلوچ قوم یا سندھی قوم کیلئے قومی المیہ ہے۔ بلوچ و سندھی قوم کی قیادت سے لیکر عام جہد کار کے کردار پر یہ ایک سوالیہ نشان اور عام کی طرف سے عدم اعتماد ہے۔
آخر کیوں آج بلوچ اور سندھی قوم پاکستان سے نفرت کا اظہار اور اپنے پیاروں کے بازیابی کے حصول کی خاطر پشتون تحفظ موومنٹ کے زیر سایہ منظور پشتون کو اپنا قومی نجات دہندہ اور لیڈر تسلیم کررہے ہیں؟ گوکہ اظہار و اقرار کی حد تک نہیں لیکن دل و دماغ اور نفسیاتی حوالے سے ضرور۔ بذاتِ خود یہ عمل تاریخ میں بلوچ اور سندھی قوم کیلئے قومی المیہ ہے۔
خاص کر بلوچوں کی اتنی طویل جہدوجہد، قربانیوں درپدریوں کے باوجود اب پشتونوں کے ان مظاہروں اور جلسوں میں بغلیں بجانا اور خوش ہونے کے ساتھ بے چینی سے منتظر ہونا۔ وہ بھی ان تمام جلسوں کے قرادادوں میں ابھی تک پاکستان جیسے غیر فطری اور ناسور ریاست کے جموریت، آئین اور قانون کا چرچا ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ فوج کو گالیاں دینا بدنام کرنا یہ تو پاکستان کے مقتدرہ قوتوں کا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ بے شک فوج کو گالی دو، مشرف کو گالی دو، آزادی کی بات کرو، مگر پاکستان کے خلاف مسلح جہدوجہد نہ کرو، نہ ہی مسلح جہدوجہد کی بات کرو، ہم آپ کو کچھ نہیں کہہ دینگے اس کے واضح مثال 2000 سے پہلے بی ایس او ہمارے سامنے واضح مثال ہے اور سندھیوں کا مثال ہمارے سامنے ہے، مزاحمت سے پہلے صرف آزادی کے نعرے جلوس و جلسوں کی وجہ سے کتنے لوگ بلوچوں اور سندھیوں کے 2000 سے پہلے لاپتہ اور اغواء ہو چکے تھے؟
کیا نواب اکبر خان بگٹی کے دور مزاحمت، شہادت بالاچ خان، غلام محمد و دوستوں کی شہادت اور کچھ ہائی پروفائل بلوچ مسلح کاروائیوں یعنی 2004میں گوادر میں چینی انجنئیروں پر حملہ، کوئٹہ میں وزیر تعلیم شفیق کو ہلاک کرنا، جان سلویسکی کا احتجاجاً اغواء اور قومی غدار شفیق مینگل پر فدائین حملہ وغیرہ وغیرہ اگر اس وقت اور ان حالت میں منظور پشتین اور ہزارہ جلیلہ حیدر اسی طرح نمودار ہوتے، اسی طرح بھوک ہڑتالوں، مظاہروں اور جلسوں کی شکل میں، تو کیا بلوچوں میں توجہ حاصل کرتے؟ بلوچ انہیں اسی طرح سراہتے ؟ اگر جواب ہاں میں ہے، تو اس وقت سندھی قوم پرست بشیر قریشی نے کراچی میں لاکھوں کے ہجوم کی شکل میں فریڈم ریلی نکالا تھا، وہ بھی غیر فطری ریاست سے آئینی شرط و شرائط کے بغیر، اس کے باوجود بلوچ قوم نے اسے مثبت عمل ضرور قرار دیکر انکی حمایت کی لیکن انہیں اپنا مسیحاء نہیں بنایا لیکن آج کیوں؟
آج یہ خود صرف بلوچ قیادت کی نالائقیوں، سستیوں، خود غرضیوں کے ساتھ ساتھ عام سیاسی کارکنوں اور جہدکاروں کے اندھے تقلید، پیروکار بننے اور بے شعوریوں جیسے اعمال کی واضح علامات ہیں۔ ہمیں اس تلخ اور زہر سے بھرے ہوے، حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا، ورنہ تاریخ اور وقت ہمیں خود تسیلم کروا دیگا۔
قابل حیرت بات یہ ہے کہ آج اکثر بلوچ اور سندھی رہنما اور کارکن سوشل میڈیا اور اپنے عام سرکلوں میں مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ بلوچ اور سندھیوں کو بھی بلوچ تحفظ موومنٹ اور سندھی تحفظ موومنٹ بنانا ہوگا۔
کیا یہ خود مضحکہ خیز اور قابل غور بات نہیں ہے؟ کس چیز کا تحفظ قوم یا سرزمین کا؟ جب کوئی چیز آپ کے ہاتھ میں نہ ہو، اس پر پہلے سے قبضہ ہو، پھر اس کی کیسے تحفظ؟ اس کو چھیننا ہوگا، چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا، نجات دہندہ تحریک موومنٹ کہنا مناسب ہوگا ۔کہنے کا مطلب کہ ہم اس حدتک جلدی متاثر ہوکر فالور بن جاتے ہیں اور بڑے سے بڑے چیزوں اور پہلوں کو اپنی جگہ چھوڑ کر چھوٹے چھوٹے چیزوں اور الفاظ تک پر بھی توجہ نہیں دیتے ہیں، بس بھیڑ بکریوں کی طرح سر نیچے دوڑتے ہیں، جب تک سر کسی دیوار اور پتھر میں لگ نہ جائے چلتے رہتے ہیں، لگنے کے بعد پھر بیٹھ کر مایوس ہوکر، رونا روتے ہیں کہ کیوں اس طرح ہوا؟
آج بھی بلوچ قوم میں پاکستان کے خلاف نفرت قومی آزادی کا سوچ و جذبہ اور احساس موجود ہے، جلد از جلد صرف بلوچ قیادت کو نہیں بلکہ تمام جہد کاروں کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور حکمت عملی مرتب کرکے اس پر عمل کرنا ہوگا، تب جاکر بلوچ قومی تحریک ماضی سے زیادہ پرجوش اور موثر ہوگا۔