دی بلوچستان پوسٹ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق کراچی میں وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی 72 گھنٹے کی بھوک ھڑتال اپنے اختتام کو پہنچ گئی، جبکہ دوسرے مرحلے میں حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر اور اسلام آباد میں احتجاجوں کا اعلان کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی جانب سے سورٹھ لوہار کی سربراہی میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں اٹھاکر گم کردیئے گئے قومپرست کارکنان کی آزادی کے لیئے لگائی گئی بھوک ہڑتالی کیمپ آج اپنے اختتام پہ پہنچی، جس میں وی ایم پی سندھ فورم کے کنوینر سورٹھ لوہار نے سندھ بھر میں احتجاجوں کے دوسرے مرحلے کی شروعات کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سورٹھ لوہار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کل ہماری بھوک ہڑتالی کیمپ پے سندھ کے ہوم منسٹر سہیل انور سیال آئے تھے ہم نے انہیں واضح طور پہ کہا کہ ہمارے لوگوں کو ریاستی ادارے اٹھا کر لے گئے ہیں۔
انہوں مزید کہا کہ آج ہوم منسٹر نے ملاقات کا ٹائم رکھا ہے جس کے بعد ہم ان کو ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہیں، اس کے بعد احتجاج کا دوسرا مرحلا شروع کریں گے۔ جس سلسلے میں حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر اور اس کے بعد اسلام آباد میں احتجاجی کیمپس لگائی جائیں گی۔
, سورٹھ لوہار نے کہا کے سندھ بھر سے 60 سے اوپر قومپرست، ادیبوں، دانشوروں، قلمکاروں اور سیاسی سماجی کارکنان کو اٹھاکر گم کردیا گیا ہے۔ عدالتوں میں جن کی آزادی کے لیئے پٹیشنس بھی چل رہی ہیں لیکن انکا کوئی بھی فائدہ نہیں ہے۔
جبکہ دوسری جانب بھوک ہڑتالی کیمپ پہ سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما سید زین شاھ، سندھ ترقی پسند پارٹی کے رہنما ڈاکٹر قادر مگسی، سماجی رہنما پنھل ساریو، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کی رہنما نصرت سحر عباسی اور سندھ کے دیگر سیاسی سماجی کارکنان نے اظہار یکجہتی کے طور پر بڑی تعداد میں شرکت کی۔ جب کہ جیئے سندھ قومی محاذ (جسقم آریسر ) کے قائم مقام چیئرمین امیر آزاد پنھور، جیئے سندھ محاذ کے چیئرمین خالق جونیجو، عوامی ورکرز پارٹی کے بخشل تھلھو، سندھی ادبی سنگت کے رہنما تاج جویو و دیگر رہنماؤں اور لاپتہ افراد کی فیملیز تینوں ہی دن کیمپ پہ بیٹھے رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسری جانب سندھ کے مسنگ پرسنس کی آزادی اور کراچی کیمپ میں رینجرز کی طرف سے عورتوں کے اوپر ہونے والے تشدد کے خلاف سندھی طلباء کی تنظیم مہران کاؤنسل کی جانب سے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے 72 گھنٹوں کی بھوک ہڑتال شروع ہوگئی ہے، جس میں بلوچ، پشتون طلباء سمیت دیگر سیاسی سماجی کارکنان شامل ہوگئے ہیں۔