مذہب کے نام پر قبضہ اور پس پردہ عزائم
تحریر : ساجدہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ: اردو کالم
جس نام نہاد الحاقی معاہدے کا پاکستانی جعلی دانشور اور میڈیا بار بار حوالہ دیتے ہیں اس دستاویز پر جناح اور خان قلات نے دو الگ الگ تاریخوں میں دستخط کئے۔ اس بات کا کوئی ثبوت وجود نہیں رکھتا کہ کس طرح، کس کی موجودگی میں اور کس جگہ ان پر دستخط کیئے گئے۔ اس معاہدے کا ایک بھی گواہ موجود نہیں ہے۔ بھلا اس طرح کا کوئی معاہدہ قانونی ہوسکتا ہے؟ دو ریاستوں کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے اور ایک گواہ تک موجودبنہیں؟ اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات بھلا کیا ہوسکتی ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک گھر بھی کرایہ پر لینے کے لیئے دو گواہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ان ہی گواہوں کی موجودگی میں کرائے کے معاہدے پر دستخط کرنا ہوتا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس ریاست کی تمام مشینری اس بات پر زیادہ زور دیتی ہے کہ مذہب کے امین ہم ہیں، گو کہ ہمارا اور اس قبضہ گیر کا مذہب کے حوالے سے ہم آہنگی ہوگی، لیکن ہم اس مذہب کے قطعی ماننے والے نہیں، جس کا مفہوم آئے روز اس ریاست کے ملا و ملٹری اپنی منشاء سے تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ اگر ہم پر قبضہ یا ہماری زمین پر اس بنیاد پر اپنا تسلط جمائے رکھنا کہ ہم مسلمان بھائی بھائی ہیں تو کیوں نا ایران اور افغانستان کو پاکستان میں شامل نہیں کیا گیا؟
برصغیر پر 1947 انگریزی انخلا کے بعد پاکستان نے محمد علی جناح اور خان قلات کے درمیان اسٹینڈ اسٹل معاہدےکےتحت بلوچستان کی آزاد حیثیت کو تسلیم کیا اور بعد میں بلوچستان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ بلوچستان اور برطانیہ کے تعلقات اور تعاون کی بنیادیں ان معاہدوں پر اسطوار تھیں جن پر بلوچ اور برطانوی حکمرانوں کی طرف سے دستخط کیئے گئے تھے۔
ان معاہدوں میں ایک 1854 کا معاہدہ ہے، جس کی توثیق 1876 میں کی گئی۔ ان معاہدوں کے تحت بلوچستان کی سرزمین کے استعمال اور بلوچستان کی برطانیہ سے مکمل تعاون کے بدلے برطانیہ بلوچستان کو کسی بھی بیرونی مداخلت کی صورت میں اس کے دفاع کیلئے مدد و کمک کا پابند تھا۔ اسکے باوجود بھی برطانیہ نے ظاہری اور خفیہ طور پر بلوچستان پر قبضہ جمانے کیلئے پاکستانی ریاست کی حوصلہ افزائی سے گریز نہیں کیا۔ برطانیہ کا یہ کردار بلوچستان اور برطانوی راج کے درمیان طے ہونے والے تمام معاہدوں کی خلاف ورزی تھی۔ جب ہندوستان کو تقسیم کرنے کے لیئے اور اسلام کے نام پر پاکستان بنانے کے لیئے برطانوی پارلیمان میں قانون آزادی ہند ۱۹۴۷ بل کی قانون سازی کی جارہی تھی، تب برطانوی پارلیمان کے ایک باشعور ممبر گوڈ فرے نیکولسن نے پارلیمانی اجلاس کے دوران اس بات پر زور دیا کہ اس بل کے اگر اندر برٹش بلوچستان کو نئی بننے والی ریاست پاکستان کا حصہ بنانے کی شق کو نکالا نہیں گیا توسارے بلوچستان پر پاکستان جبری قبضہ کرسکتا ہے۔
نیکولسن کے الفاظ یہ تھے ’’ اگر بلوچستان پاکستان کا حصہ بننا نہیں چاہتا، جبری طور پر بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنانے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکے گی اور یہ قانون اسی صورت میں پاس ہوجاتا ہے، اور یہ بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے‘‘
مذکورہ معاہدوں کے تحت برطانیہ بلوچستان کا اتحادی تھا۔ بہر حال برطانیہ نے بلوچستان کے ساتھ دھوکہ کیا۔ دوسری طرف ایک پیشہ ور وکیل، محمد علی جناح جو کہ بلوچستان کا نوکر تھا، بعد میں پاکستان کا گورنر جنرل بنایا گیا اور اس کی سربراہی میں بلوچستان پر قبضہ کیا گیا. عالمی طاقتوں کی بلوچستان حوالے دوہرا معیار اور اپنے مفادات کے عوض آنکھیں موندنا انتہائی تباہ کن اثرات کے باعث تو بن رہے ہیں لیکن انسانیت کے نام پر بڑے دعوے کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے.
حالیہ ایام میں کُرد اور کاتالونیہ کے عظیم فرزندان نے تو اپنے ریفرنڈم سے اپنا موقف ثابت کیا لیکن عالمی مفادات کے پیش نظر انہیں پیچھے ہٹنا پڑا، بات کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ بلوچ قوم اور ہمارے سیاسی پارٹیوں کے لیئے یہ انتہائی ضروری امر ہے کہ وہ حالات کے پیش نظر اپنی پالیسیاں ترتیب دیں، جس سے ماضی میں کی گئی تمام مغالطوں کا ازالہ ہو اور نئی راہوں کو تلاشنہ وقت کی ضرورت بن چکی ہے. پاکستان اس وقت دنیا میں تنہائی کی جانب سفر کررہا ہے اور ہماری پالیسیاں ہمیں نئی راہوں کا مسافر بنانے کے لئے بیتاب ہیں اگر ہم ان پالیسیوں کو اپنے تحریک کے اندر لاگو کریں، میں یقین کے ساتھ کہتی ہوں کہ بلوچ شہداء کی قربانیاں اور ہماری زمین پر ہر گرتا قطرہِ خون، اس درخت کو تناور بنادیں گی، جس سے آزادی کا خواب پورا ہونے کا قوی امکان ہے پر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے رہبرانِ وطن اپنی پالیسیاں کس طرح ترتیب دیں گے اور کس جانب رختِ سفر باندہیں گے.