ماوں کا عالمی دن، بےبس بلوچ ماں
جیئند بلوچ
آج دنیا بھر میں، ماں سے موسوم رکھ کر آج کا دن منایا جارہا ہے، جس کا مقصد ماں کی اس عظیم تر آفاقی چاہت کا پرچارک ہے، جسے اپنے بیٹوں سے نسبت ہے، جس کا بلا شبہ ماں کے سوا کسی اور سے قطعاً نسبت نہیں ہے۔ آج کا یہ دن، ماں کے محبت کے نام اقوام متحدہ نے رکھ کر ماں کی آفاقی محبت کو انمول بلکہ یادگار بنانے کی سعی کی ہے۔
چونکہ یہ دن کسی ایک قوم یا مخصوص انسانی نسل کے لیئے مختص نہیں، اس کائنات میں بسے تمام قوموں کا مشترکہ دن ہے، سو اس نسبت محبت اور چاہت کی پیکر ماں کے دن کا اطلاق بلوچستان کی سرزمین سے متعلق بلوچ ماں پر بھی ہوتی ہے، اسی سبب پہلے ہر بلوچ ماں کو یہ دن ڈھیر دعاؤں کے ساتھ مبارک ہو کہ کائنات کے کارساز اور پالنہار ان کے زرہ زرہ غموں، دکھ، آلام اور مشکلات کا مداوا کرے اور انہیں دیگر اقوام کی ماؤں کے ساتھ مل کر اگلے برس ماں دن پر یہ دن خوش گوار گذارنے کے قابل بنادے۔
آج چونکہ ماوں کا دن ہے، سو جب دنیا ماں سے محبت منارہی ہے، ایسے میں بلوچ خطے کی ماں پر اپنے بیٹے سے محبت کا یہ لمحہ بھی چھین کر انہیں کرب ناک لمحات کا شکار کردیا گیا ہے، ان کے دامن میں دکھ، یاس اور بے بسی کے سوا کچھ نہیں ان کی آنکھیں لاپتہ کیئے گئے بیٹوں کی راہ تکتے، آ نسو بہاتے خشک ہوگئی ہیں، وہ اب رونا چاہیں بھی خشک آنکھوں سے رو نہیں سکتے۔
بے بسی کا پیکر بلوچ ماں اپنی سرزمین پر جینے کے آزاد آدرش سے محروم ایک سوال ہیں، ان اقوام کے لیئے جن کا انسانیت، انسانی حقوق اور یوم ماں ایسے یادگار ایام پر دعویٰ ہے جو اس دنیا کو مہذب سمجھنے کے دعویدار ہیں۔
اس وقت جب دیگر اقوام کی ماں محبت کو سلیبریٹ کررہے ہیں، خوشی سے سرشار ہیں اور مستقبل کے رنگین خواب بُن رہے ہیں، اسی لمحے بلوچ ماں کے سامنے کہیں اس کے بیٹے کی لاش پڑی ہے، کہیں اسکے آنکھوں کے سامنے جبراً بندوق بردار اسکے لخت جگر پر تشدد کرکے، انہیں لے گئے ہیں اور کہیں دیدہ طلب ماں برسوں سے لاپتہ کردیئے گئے بیٹے کی محبت میں غم گساں، آج بھی ان کی آمد کا منتظر ہے۔
بلوچ سرزمین، پاکستان کی خونی جبر کا بدترین منظر گاہ ہے، جہاں بلوچ کو زندگی کی کسی خوشی پر معمولی دسترس نہیں ہے۔ پاکستان اور ان کی درندہ فطرت فوج کی دہشت گردی کا شکار بلوچستان کا بےبس اور مظلوم ماں اقوام عالم کے طے کردہ ایام اور فطرت کے عطا کردہ تمام نعمتوں کو اپنانے کا اسی طرح مستحق ہے جیسا کہ دیگر اقوام ۔
ایسے میں یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کم ازکم ماں سے موسوم جیسے یادگار ایام پر دیکھنے کی تھوڑی بہت زحمت تو گوارا کرے کہ آج کے دن کہاں پہ ماں ان کے طے کردہ دن کی خوشیوں پر دسترس نہیں رکھ سکتے، وہ ریاستوں اور ان کے درندہ فوج کی وحشیت کے شکار ہیں۔
خود بلوچ کو بھی سمجھنا چاہیئے کہ آج جب دنیا شادان و فرحان ایک خوبصورت لمحے میں خود کو مقید کررہا ہے، انہیں بھی خوشی اور محبت کا استحقاق حاصل ہے، یہ خوشیاں ایک آزاد سماج میں غلام کے نسبت زیادہ کارگر ہوتی ہیں، اس لیئے ضروری ہے کہ چھوٹے بڑے ہر اختلاف کو پرے رکھ کر جدو جہد کا ایک باہمی اشتراک تشیکل دے دیں۔