لاپتہ افراد کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3074 دن ہوگئے۔ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او کے سابقہ چیئرمین و سابقہ سینیٹر مہیم خان بلوچ اور بی ایس او کے موجودہ سینئر وائس چیئرمین خالد بلوچ نے لاپتہ افراد و شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا پچھلے مارچ میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں ایک سماعت کے دوران ٹی کمار، جوکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل امریکہ کے بین الاقوامی ایڈوکیسی ڈائریکٹر ہیں، نے پاکستان کی حکومت پر بلوچ عوام کے خلاف جبری گمشدگیوں، تشدد اور قتل پر ایک منظم پالیسی کی پشت پنائی کہا کا الزام عائد کیا تھا.کمار نے اس معاملے پر عالمی برادری کی خاموشی کی بھی مذمت بھی کی تھی.
ماما قدیر نے مزید کہا کہ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان کی حکومت سے پورے ملک میں ریاستی ایجنسیوں کی طرف سے ہزاروں بلوچ افراد کے اغواء کرنے اور ان کے انجام یا ٹھکانے کے بارے میں معلومات فراہم نہ کرنے کے ناپسندیدہ عمل کو روکنے کا مطالبہ بھی کیا لیکن ابھی تک پاکستانی حکمرانوں، خفیہ اداروں کو کچھ پرواہ ہی نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد، شہداء کی صحیح تعداد تاحال نا معلوم ہے کیونکہ ان کے لواحقین کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ خبردار اگر آپ نے ایف آئی آر درج کروائی یا کسی ہیومن رائٹس کے پاس گئے تو آپ لوگوں کو اٹھایا یا مار دیا جائیگا. اسی وجہ سے لاپتہ افراد کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہوسکتی اور ان کے علاقوں میں جاکر معلومات اکھٹی کرنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز جوکہ لاپتہ افراد کے خاندان والوں میں کچھ کی طرف سے قائم کردہ ایک تنظیم ہے جو 2000 کے بعد سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لاپتہ افراد کو تقریباً 45000 ہزار بتاتا ہے، لیکن صحیح تعداد 1 لاکھ بھی ہوسکتی ہے۔