فیسبک: تعمیر یا تزویر؟ – شہزاد بلوچ

275

فیسبک: تعمیر یا تزویر؟

شہزاد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

ہر انسان کے سوچنے اور سمجھنے کا اپنا ایک محورہوتا ہے اور سوچ و فکر ہی انسان کو اکثر اسکے مقاصد اور بلندیوں پر سر کرتی ہے اور بعض اوقات وہی سوچ ہی اس کو لے ڈوبتی ہے، مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ سوچنا ہی چھوڑدے، منفی خزانے کو کھوجنے کی عادت ہی انسان کو اکثر الجھنوں کا شکار کردیتی ہے۔ جو انسان اپنے سوچ کو ہی نہ سمجھ پائے یا اس پر قائم نہ رہ سکے تو اس پر کسی ارسطو یا جبران کے باتوں کا اثر ہونا لازم نہیں کیونکہ ایسے انسان اپنے انا کے زنجیروں میں جکڑا ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بعض معاملات کو وہ کسی سے کہنے کہ بجائے انکے بینرز بنا دیتا ہے کہ میں نے اپنا کام کر لیا اب مرضی ہے آپکی، اتفاق کریں یا اختلاف رکھیں، لیکن اسے معلوم نہیں کہ اس نے اپنے اختلاف کو جو ایک اشتہار کا رنگ دیکر نمائش کے لئے پیش کیا ہے، اس سے اسکی بات کا وزن ویسے ہی کافی حد تک گھٹ چکا ہے۔

میری باتیں کسی پرانے سول آئیزیشن کے مطالعے سے نہیں ملیں ہیں، جو کچھ لکھنے کی کوشش کررہا ہوں، وہ موجودہ حالات پر ہی مبنی ہیں، جو اکثر دماغ میں موجود رہتے ہیں اور شکر ہے کہ آج کل ہم جیسے بےشعور لوگوں کو بھی ایک ایسا میڈیم میسر ہے کہ جب دل چاہے اپنی من کی بات کر دیتے ہیں اور وہ میڈیم ہے فیسبک ۔ ویسے تو خیر اس کے استعمال کرنے کے لاکھوں طریقے ہیں۔

مارک ذکربرگ نامی ایک امریکی نوجوان نے اسی طرح رابطے کے ویب سائٹ کو 2004 میں تیار کیا تھا۔ ایک رپورٹ جیب کے مطابق 2017 میں فیسبک کی پندرہ بلین ڈالرز آمدنی ریکارڈ کی گئی تھی۔ کہنے کو تو فیسبک بس ایک عوامی رابطے کا ویب سائٹ ہے مگر اسکا جائزہ لیا جائے، تو یہ طالب علموں کے لیئے ایک اُستاد کی اہمیت رکھتا ہے، بیمار حضرات بھی اکثر اپنا علاج اسی میں موجود مختلف پیجز میں کھوجتے ہیں، کاروباری حضرات بھی یہیں سے اپنا چولہا چلا رہے ہیں، لوگ دوست بھی یہیں بناتے ہیں اور دشمنیاں بھی یہیں پر پال رہے ہیں۔

ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ فیسبک کن طریقوں سے استعمال کی جاتی ہے۔ ہمارے یا پرائے، کافی عرصے سے اس فیسبک پر ہمارے بلوچ لوگ بھی باقیوں کی طرح اپنے اکاؤنٹس بنا کر اس فیسبک کے میدان میں اپنے قدم جمائے ہوئے ہیں۔ کوئی اپنے نام سے تو کوئی کسی اور کے نام سے متاثر ہوکر خود کا ایک نام مقرر کر کے کود پڑتا ہے اور سب سے پہلے سرچ انجن میں جاکر اپنے مخالفین کے نام لکھ کر ہی سرچ کرتا ہے کہ اس وقت فلانے کی کیا سرگرمیاں ہوسکتی ہیں۔ مطلب فیسبک کو بہت ہی آسانی سے لوگوں نے سازشی مرکز بنا رکھا ہے۔ کسی کا اوڑھنا یا بچھونا بھی پسند نہ آیا، تو فیسبک میں جاکر اسے ٹوک دو اور چار دوستوں کے ساتھ انہی گھسی پٹی باتوں کا تذکرہ کرکے خود کو ذہنی تسکین دیکر باقی کام شروع کردو۔

میں جب بھی فیسبک پر لاگ ان ہوتا ہوں، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں غزوہ بدر میں داخل ہوچکا ہوں، جتنے بھی لوگ میرے پاس ایڈ ہیں ہر کسی کی وال پر ایک دوسرے کے لیئے موجود وہ اسٹار پلس کی عورتوں کے مافق طعنے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مزے کی بات یہ تمام لوگ خود کو سیاسی لوگ کہتے ہیں، ان میں سے کچھ من ہی من میں اور کچھ لوگ اعلان کرکے خود کو دانشور کہتے ہیں، خیر ہر انسان کی ایک آزاد حیثیت ہوتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں مگر یہ طریقہ بلکل بھی درست نہیں کہ کسی سے اگر آمنے سامنے بات کرنے کا اخلاقی جرات موجود نہ ہو تو خدارہ بھیس بدل کر اپنے ہی بھائیوں کو نقصان پہنچانا بند کرو، میری لسٹ میں تقریباً میرے اپنے بلوچ موجود ہیں، جنہیں میں نے کبھی نہیں دیکھا، وہ کسی کے اچھے کام کی تعریف کررہے ہوں، بس پورا دن ہر کوئی اپنے لیڈر کی شرم گاہ بچانے میں لگا ہوا ہے، وہ الگ بات ہے انکی شرم گاہیں بچاتے بچاتے اس کو اپنے برہنا ہوجانے کا احساس بھی نہیں ہو پارہا۔

ہر انسان کے پاس یہ حق موجود ہے کہ وہ اپنا سیاسی نقطہ نظر پیش کرسکے اور کسی بھی سیاسی تنظیم کے پرچم تلے جدوجہد کرسکے مگر ان سب پر ایک ذمہ داری لازم ہے کہ تمام پارٹی کے لیڈران سوشل میڈیا کے حوالے سے اپنے کارکنوں کو ذمہ داریاں دیں کہ وہ کونسے سیاسی دائرے میں رہتے ہوئے، اپنے عظیم مقصد کو پذیرائی دیں، بجائے اسکے انکے ہر غلط عمل کو سراہتے ہوئے انکی پشت پناہی کریں۔

ہر تنظیم اپنے کارکنان کو پابند کریں کہ سوشل میڈیا کو صرف ایک ہی مقصد کے لیئے استعمال کریں، اگر وہ واقعی سیاسی سوچ رکھتے ہیں اور مقصد ہو ہماری آزادی، ہماری سرزمین اور ہم پر ہونے والے مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کرکے دشمن کا پردہ چاک کرنا، ناکہ دن رات اپنے لیڈرز کی نمائش میں مصروف رہ کر اپنے آزادی پسند دوستوں کو خود سے جدا کرنا اور دشمن کو مزید فائدہ پہنچانا۔

سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ آپس میں ایک دوسرے کو گالیاں دینے کے بجائے آپس میں ایک اچھا کارڈینیشن قائم کریں اور نیک نیتی کے ساتھ مل کر جدوجہد کریں، تبھی ہم اس ذریعے کا بھرپور فائدہ اٹھاسکیں گے۔