غلام قوم اور ووٹ – تئیبان بلوچ

811

غلام قوم اور ووٹ

 تحریر : تئیبان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

بلوچ قوم کو ستر سال ہوگئے اس مملکت ابلیسیت میں اسٹیبلشمنٹ کے بنائے پارٹیوں کو ووٹ ڈالتے، لیکن نتیجہ صفر، وجہ معلوم کرنے کے لیئے آیئے مملکت اور اسٹیبلشمنٹ کی پارٹیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں. 1947 کو نام نہاد دو قومی نظریے کے شکل میں پاکستان موجود میں آتا ہے، پھر پنجابی اسٹیبلشمنٹ چھوٹے، کالے قد اور بڑی آبادی کے مالک بنگالیوں کو دیوار سے لگاتا ہے، اسی ووٹ اور بیوروکریسی کے کش مکش کی جنگ میں آخر کار بنگلہ دیشی جان جانتے ہیں کہ اس پنجاب کے ساتھ رہ کر وقت اور قوم دونوں کا نقصان ہے، لہٰذا بنگالی قوم کے سیاسی پارٹی فیصلہ کرتے ہیں کہ اب آزادی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں اور وہ اپنی قومی آزادی کے جنگ کا اعلان کرتے ہیں اور بہت جلد اور قوموں کی مدد سے اپنی آنے والی نسلوں کے آزادی کی جنگ کو جیت لیتے ہیں اور ان کی دنیا میں اپنی پہچان بن جاتی ہے.

اب آتے ہیں بچے کچھے الباکستان کی طرف، جو آج کل مولوی اور ابلیسی افواج کے ہاتھوں میں چمک رہا ہے کبھی پی پی، کبھی مسلم لیگی اور کبھی ملا و جلالی پارٹیوں کے شکل میں الیکشن و ووٹوں کا کھیل شروع ہو جاتا ہے اور حاصل کچھ نہیں سوائے ساری عمر غلامی اور شاہ سے زیادہ شاہ کی زیر غلامی کا۔ جیسے ہم اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے بنا کوئی سیاسی پارٹی نہیں بن سکتا اس مملکت ابلیسیت کے اندر، پھر سوال یہ اٹھتا ہے ہمارا قیمتی ووٹ؟ اس ووٹ کو دینے کا مقصد؟ کیا جو مجھے غلامی کی زنجیروں میں بند کر دیا گیا ہے، بلوچستان میں گنے چنے دو پارٹیاں ہیں، نیشنل پارٹی اور وغیرہ وغیرہ لیکن بلوچ قوم کو آج تک ان ستر سالوں میں سوائے دھوکہ دینے کے انہوں نے کیا دیا ہے؟ زیادہ دور نہیں جاتے ہیں، حالیہ انتخابات 2013 کے بلوچستان کو الیکشن اور پارٹیوں نے کیا دیا اور کیا لیا؟ ان چار سال کچھ مہینوں میں تین وزیر اعلیٰ جو پانچ سو ووٹوں سے کم شخص کو جس کی گھر میں کوئی نہیں سنتا، وہ امیر بلوچستان بننے کا دعویٰ کرتا ہے اور آزادی کے جنگ کو کاونٹر کرے گا۔ آزادی کی جنگ کو کاونٹر کرنے کے لیئے میدان میں آئے ہوئے نیشنل پارٹی، خود دو ٹکڑوں میں بٹ گیا، مسلم لیگی بھی خالی ہاتھ گھر لوٹ گئے. اب بچے چم جھل گروپ آزاد امیدواروں کا ٹولہ جو پرانے بستروں میں کھٹمل جیسی پہچان رکھتے ہیں، آگے آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ جو سیاسی جماعت نہیں کر سکے، تو یہ کھٹمل گروپ کیا کرے گا.

اب آپ خود سوچیں جس ملک میں آزادی سے کوئی پارٹی نہیں بنا سکتا، اسلام آباد اور راولپنڈی کے اجازت کے بغیر۔ کیا وہ پارٹی عوامی پارٹی بنے گا؟ یا اپنی مرضی سے آپ یا آپ کے ملک کے لیئے کچھ کر سکے گا؟ کیا آپ کا ووٹ کسی اچھے کام کے لئے استعمال ہو گا؟ کیا بنگلہ دیش کے لوگوں نے غلط فیصلہ کیا، جو آج اپنی مرضی سے اپنے کل کے فیصلے کرتے ہیں؟ کیا میں ووٹ دوں اُس شخص یا پارٹی کو جو کل میرے گھر، خاندان اور قوم کو مزید تباہی کے دہانے پر پہنچا دے؟ ہمیں نہیں بھولنا چاہیئے کہ بلوچ عوام نے 2013 کے الیکشن کا بائیکاٹ کر کے دنیا والوں کو یکجہتی اور متحد ہونے کا ثبوت دیا تھا، آج ہمیں اور شدت سے پنجاب اسٹیبلشمنٹ کو مایوس کرنا اور مار بھگانا ہے، اپنے بلوچ ڈیہہ سے، تاکہ دنیا ہمیں ہماری نظر سے دیکھیں، نا کہ اپنی نظروں سے. ہمیں نہیں بھولنا چاہیئے کہ ہم ابھی تک ایک غلام کی حیثیت رکھتے ہیں، مملکتِ ابلیسیت اور ابلیسی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ہمیں زندہ ضمیری اور آگاہی و شعور کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ ہم اپنے ہزاروں سالوں کے پہچان کو 70 سال کے بنے ہوئے ملک پر قربان نہیں کر سکتے. ہمارے آبا و اجداد نے کسی پنجابی کے لیئے قربانی نہیں دی ہے بلکہ اپنے آنے والی نسلوں کے لیئے قربانی دی اور ہمیں بھی یہی کچھ کرنا ہے تاکہ ایک دن پھر بلوچ ڈیھ دنیا کے نقشے پر قائم و دائم رہے اور رہے گا ضرور، ہمیں اپنے آپ پر بھروسہ ہے کہ ہم بلوچ ہیں اور بلوچ کسی سے کم نہیں۔

بلوچ قوم کو اب ایک بار پھر سے پنجابی اسٹیبلشمنٹ کو منہ توڑ جواب دینا ہو گا، آنے والے نام نہاد الیکشن سے جو سالوں سے بلوچ قوم کو بیمار و کم عقل سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے بائیکاٹ کرنا ہوگا اور آپ یہ بھی جانتے ہیں پنجاب بلوچستان کے نام نہاد پارٹیوں کو توڑ کر نئی پارٹی اور حلقہ بندیاں کس چالاکی سے کر رہا ہے، یہ سب کچھ آپ کے سامنے ہو رہا ہے، آپ کس طرح اپنے گُلزمیں کو ایک پنجابی کے ہاتھوں دے رہے ہیں، یہ الیکشن سلیکشن اسی طرح چلتا رہا، کل دنیا میں تم کو کوئی نہیں پہچانے گا، بلوچ کے نام سے جو قوم اپنی گُلزمیں کا نہیں ہو سکا کسی اور کا کیا ہو گا۔

اس گُلزمیں کے لیئے لاکھوں بلوچوں نے قربانیاں دی ہیں، اور آج تک دے رہے ہیں سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ لاپتہ ہیں ابلیسی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں، سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ فرزند جام شہادت نوش کرچکے ہیں اپنی مادر گُلزمیں کے لیئے اور ابھی تک پہاڑوں اور میدانوں میں لڑ رہےہیں میرے اور آپ کے لیئے. لیکن میں اور آپ الیکشن اور ووٹ کے چکر میں اپنی ذمہ داری بھول گئے ہیں، پورے بلوچستان میں ایک ایسا گھر،خاندان نہیں ملے گا جس کے گھر کوئی شہید یا لاپتہ نہیں ہوا ہو، آج بھی بلوچ قوم پتھروں کے دور میں رہ رہا ہے، اسی الیکشن اور سیاست کے چکر سے گیس، ریکوڈیک سینڈک اور معدنیات سے مالا مال بلوچستان کو کچھ نہیں ملا، اب سی پیک کا شوشہ کیا میں جان سکتا ہوں بلوچ پارلیمنٹی چاپلوسوں سے سی پیک کے بارے میں جو چین اور پنجاب اسٹیبلشمنٹ کے درمیان طے پا گیا ہے؟ کیا یہ الیکشنی امیدوار مجھے آگاہی دے سکتے ہیں کہ وہ خود کتنے خود مختار ہیں سی پیک کے بابت؟

بلوچ قوم کے ہر مکتبہ فکر کے دوستوں سے گذارش ہے کہ اس مملکتِ ابلیسیت کے الیکشن سے بائیکاٹ کا شعور بیدار کریں بلوچ عوام میں، یہ الباکستان کا آخری الیکشن ہونا چاہئے بلوچ سرزمین پر۔
بلوچستان رہے گا تو بلوچ رہے گا بلوچستان نہیں تو کچھ نہیں میرے میریں بلوچ