شعور کا فقدان اور ہمارے تعلیمی ادارے – وش دل زہری

392

شعور کا فقدان اور ہمارے تعلیمی ادارے

تحریر: وش دل زہری

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

اس علاقے کے مسائل پر، اس میں بسنے والوں کی حالت زار پر، موجودہ اور گذرے ہوئے اوقات پر شاید کسی نے کچھ تذکرہ کی ہو یا لکھا یا پڑھا ہو، مگر اس پسماندہ علاقے میں ایک نئی ابھار سامنے آئی ہے، جسے کچھ لوگ ترقی کا نام دیتے ہیں، کچھ لوگ اسے شعور کا اور کچھ لوگ اسے تعلیمی حق کا نام دےکر دل میں خوش فہمیوں کا سمندر میں غواصِ کامل بنا بیٹھا ہے۔

یہ ابھار تعلیم کے نام سے پھوٹ کر نکلا ہے، جسے ہمارا سادہ لوح عوام مستقبل کی روشنی سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہمارے یہاں تعلیم کے نام پر یک طرفہ بیانیہ نظام کا پہلے سے بھر مار تھا لیکن اس بار اپنے کندھوں پر ایک اور بلا لے آیا ہے۔ تعلیم انسان کے اندر چھپے صلاحیتوں کو ترتیب دے کر شعور کے قلعے کو تعمیر کر دیتا ہے اور اس قلعے کی ہر اینٹ انسان کے صلاحیتوں سے لےکر اس کو دل کش منظر بنا دیتا ہے۔ مگر یہاں تعلیم بھی اس سرحد پر آکر کھڑا ہے کہ اگر آگے بڑھے تو موت کا فرشتہ لے جائے، پیچھے ہٹے تو سولی پہ لٹکایا جائے۔

تعلیم کی متن جب غیر آزادانہ رویوں کے اختیار کے بعد ظہور میں آجائے، تو وہ تعلیم نہیں رہتا بلکہ ایک آلہ یا ہتھیار تیار کرنے والا مشینری بن جاتا ہے۔ تعلیم کو پانی کا ذخیرہ کرنے والے تالاب سے تشبیہہ دینے والے حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ تالاب سے جب پانی دوسرے جگہ منتقل کیا جاتا ہے، وہ پانی پر کاشت افیون اور تریاک کا ہو رہا ہے یا ان فصلوں کا جو انسانوں کے صحت کو قوت بخشتے ہیں۔

آج ہم اُس بلا کا تذکرہ کریں گے، جس کو یک طرفہ بیانیہ تعلیم نے اپنے کندھوں پر بٹھا کر لے آیا ہے، گذشتہ کچھ عرصے سے ہمارے علاقے زہری(جسے ہم اپنا مسکن سمجھتے ہیں) میں سننے اور دیکھنے میں آرہا ہے کہ ایک تعلیمی ادارے کا آغاز ہوچکا ہے جس کو اقراء اسکولز ایسوسی ایشن بلوچستان کا ایک حصہ بتایا جارہا ہے۔ اس کے منشور کا تو مجھے پورا علم نہیں مگر جہاں تک ان کا اندازہ لگایا ہے ان کی تعلیمات مکمل دینی ظاہر کیا گیا ہے، جس میں قرآن و سنت اور دینی تعلیمات سمیت دنیاوی تعلیمات کا بھی ذکر ہے۔

اس ادارے کا نام اور اس کے کچھ اصول و خصوصیات سامنے آئے ہیں، اس ادارے کا نام، اقراء روضتہ الاطفال اکیڈمی اور اس ادارے کے چند خصوصیات جو بچوں کے داخلے کیلئے پیش کئے گئے ہیں درج ذیل ہیں۔.
۱.دینی و عصری(زمانے کا علوم) تعلیم کیلئے منفرد ادارہ.
۲.مارپیٹ سے پاک تربیت ماحول.
۳.تدریسی عملہ، تجربہ کار ماہر اساتذہ پر مشتمل.
۴.ماہرین تعلیم کی نگرانی میں اخلاقی تربیت کا خصوصی انتظام.
۵.قرآن مجید اسلامی کُتب کے ساتھ، انگلش، حساب، سائنس اور مکمل عصری تعلیم کے امتزاج سے ایک نئی تعلیمی نظام کو تشکیل اور فروغ دینے والا پہلا تعلیمی ادارہ۔

ان پانچ فقروں میں ایک اہل علم پورا اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان فقرات میں کتنی صداقت ہے، ہم دین کے منکر ہونے سے پہلے یہ کہہ ہی دیں تو بہتر ہوگا کہ ہم بھی مسلمان ہیں، ہمارا بھی یہی دین ہے، ہمارا بھی خدا اور رسول وہ ہے، جس کی آپ پیروی کرتے ہیں۔

پہلا فقرہ دینی اور عصری تعلیمات کا حوالہ دیتا ہے، جس سے سینکڑوں سوالات جنم لیتے ہیں لیکن ہم صرف ایک یا دو سوال سامنے رکھتے ہیں باقی سوالات اس علاقے کے باشعوری کے دعوے داروں پر چھوڑ دیتے ہیں، دینی تعلیمات کب اور کیسے ڈھال بن جائیں گے، یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر کل جو حضرات عصری علم کو الحاد کہتے تھے آج کیسے اس پر خود آمادہ ہوئے اور پُرجوشی سے اس پر کام کرنا بھی شروع کر دیا؟

دوسرا سوال، آپ واضح کریں کہ یہ علم عصری کی پرچار کرنے والا، آج بھی آپ کے طبقے کے نظر میں منکر اور مرتد ہے تو آپ اس علم کو نسلوں میں منتقل کرنے والا اسلام کے نظر میں کیا بنے؟ چلو دوسرے فقروں کا چرچا کرتے ہیں کہ مارپیٹ سے پاک تربیت ماحول، اس فقرے میں وہ سارے غیرانسانی سلوک کرنے والے دینی معلم کا ذکر ہے، جو دینی مدرسوں میں طالب علموں پر طیش پا ہوکر برستے تھے۔ ہاتھ ٹوٹے، پیر ٹوٹے مگر استاد روحانی والد ہے، مغربی تعلیمی اصولوں کو بےغیرتی کا مہر لگانے والے آج ان مغربی اداروں کے اصولوں پر کیسے آمادہ ہوا؟ ظاہر سی بات ہے مارپیٹ سے پاک اداروں کا منشور پہلے یورپی اور ترقی یافتہ ممالک سے نمودار ہوا. تاکہ وحشت اور تعلیم کو ایک ساتھ رکھ کر تعلیم کی توہین نہ کیا جائے بلکہ انسانی نفسیات پر توجہ دیا جائے۔ پاکستان میں آج بھی یک طرفہ بیانیہ نظام میں اداروں کا وہی لاٹھی اور بھیڑ بکریوں کو ہانکنے والا رویہ پایا جاتا ہے.

تیسری بات تدریسی عملہ، تجربہ کار ماہر اساتذہ پر مشتمل، یک طرفہ بیانیہ تعلیمی نظام میں استاد شاگردوں کو منڈی سے فیکٹری میں آنے والے خام مال کی طرح سمجھتا ہے اور ان کو وہی بنا دیتا ہے، جو وہ بنانا چاہتا ہے، کیونکہ یک طرفہ بیانیہ تعلیمی نظام میں استاد جو کہتا ہے، شاگرد وہ سب اپنے پاس جمع کردیتا ہےاور ظلم و جبر کی انتہا تو یہ ہے کہ اس تعلیم کے متن کو بھی اُن کی رائے اور مشورے کے بغیر چھاپ دیا جاتا ہے، جن کو پھر یہ پڑھایا جاتا ہے۔ شاگرد صرف وہی سنتا ہے جو اسے پڑھایا جاتا ہے اس سے ہٹ کر سوالات یا اپنی صلاحیتوں سے تخلیقات سے مکمل محروم کیا جاتا ہے۔

پاکستان تعلیمی نظام کو تو جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، ایسے ہی پایا ہے کہ استاد استادوں سے جو سیکھ کر آتا ہے، وہی شاگردوں میں منتقل کرتا ہے، مگر تدریسی ماحول کا آج بھی فقدان ہے، جس میں دونوں مل کر سیکھ لیتے ہیں، تیسرے فقرے میں جن ماہرین کا تذکرہ ہے ان کے استادوں کا بھی استاد آج تک وہی خام مال پراڈکٹ بناتا آیا ہے۔ میں نےآج تک ان اداروں سے نکلے کسی شاگرد کو اسٹیفن ہاکنگ بنتے نہیں دیکھا اور نہ کہ ماضی میں کوئی ان کے اسٹیفن کا ذکر ہے۔.

چوتھی بات ماہرین تعلیم کی نگرانی میں اخلاقی تربیت کا خصوصی انتظام، اب میں کچھ کہوں گا تو یہ اخلاق کے پرچار کرنے والے مجھے مرتد کا پارچہ سرپر پگڑی بناکر باندھ کر ہی چھوڑ دیں گے، یہ وہ ادارہ ہے جس کے صوبائی پروگراموں میں وہی لوگ مہمانِ خاص ہوتے ہیں، جو میڈیا کے لائیو پروگرام میں کیمرے کے سامنے خاتون میڈیا اینکر کا پجامہ اتارنے کی دھمکی دے کر نکل جاتا ہے، جسے آپ حافظ حمداللہ کے نام سے پہچانتے ہیں۔

پانچویں بات قرآن مجید اسلامی کُتب کے ساتھ، انگلش، میتھ، سائنس اور مکمل عصری تعلیم کے امتزاج سے ایک نئی تعلیمی نظام کو تشکیل اور فروغ دینے والا پہلا تعلیمی ادارہ، “انگلش لینگویچ میں غیرت کا لفظ ہی نہیں ہے”، یہ فقرہ ایک دینی عالم کے زبان سے ایک کانفرنس کے دوران میں نے اپنے کانوں سے سنا تھا، سائنس ایک لعنت ہے، جو اسلام کے خلاف سازش کا اہم پہلو ہے۔ پانچویں فقرہ میں وہ سوالات جنم لیتے ہیں جن کے جوابات کو یہ کہہ کر مسترد یا نو کمنٹ کے حوالہ کیا جائےگا کہ یہ اسلام کے خلاف سازش ہیں۔

آنے والی نسلوں کے مستقبل کو روشنیوں میں دیکھنے والے ماں باپ سے میری دست بند یہی گزارش ہے کہ خدارا آنے والے نسلوں پر رحم کھاؤ اس سرزمیں کو امریکہ یا کسی میزائل بردار کا کالونی نہ بناؤ، افغانستان ہمارے لئے ایک کھلا سبق ہے، معصوم بچوں کے دینی علوم کے آڑ میں افیون کاشت کرنے والے اور سستے ہتھیار خودکش حملہ آور تیار کرنے والے تو کسی اور سلطنت میں ان تعلیمات کا ذوق اُٹھا رہے ہیں، جن کو کبھی الحاد کہا کرتے تھے۔ خیبر پختون خوآہ کے قبائلی علاقوں سمیت دیگر جگہوں پر ایسے اداروں کا آغاز ہوا، جس کا رونا اب منظور پشتین ہزاروں پشتونوں کے ساتھ روڈوں پر نکل کر رو رہا ہے، کیونکہ وہاں بھی ایسے ہی دینی ادارے تھے، بعد میں طالبان، القاعدہ کا مہر لگاکر ان پر بمباری کیا گیا، وہاں بھی ایسے ہی معصوم ننھے بچوں کے چیتھڑے اُڑا دیئے گئے۔ قندوز کے ایک دینی ادارے پر حملہ چند دن قبل کی بات ہے، اگر وہاں پر ایک بھی معصوم بچہ مارا گیا ہے، اس کا قیمت پہلے وصول ہوچکا ہے۔

افغانستان صوبہ بغلان، صوبہ بادغیس، شمالی افغانستان،صوبہ لوگر، صوبہ ننگرہار،صوبہ میدان وردگ، صوبہ پکتیا، صوبہ لغمان اور صوبہ غزنی سمیت دیگر صوبوں میں ایسے ادارے قائم کیئے گئے، جن پر روزانہ حملے ہوتے ہیں اور ان حملوں میں زیادہ اموات معصوم بچے اور عورتوں کا ہوتا ہے۔ لال مسجد کے وہ بچوں کا چیخ پکار آج بھی اُن دیواروں میں گونجتی ہے، جن کے زندگیوں کا سودا پہلے سے لگایا گیا تھا اور جن کے نام پر وہ آپریشن ہوا، وہ آج بھی زندہ سرعام گھوم رہا ہے۔.

گورنمنٹ کے تعلیمی عمارتوں میں اپنے جانوروں کےلیئے سوکھا گھاس ڈالنے والا میر، وڈیرہ، ٹکری اور ان اداروں کو لعنت کہنے والا مُلاّ اس ادارے کے افتتاح پر پہنچ گئے، مگر وہ پہلے سے موجود اداروں پر جانے کی زحمت بھی نہیں کرتے ہیں، زہری کےعوام کو ایک بار پھر تھیوکریسی کا سامنا ہے۔ وہاں کے نوجوانوں کی داڑھیاں اترنے کے بعد جو طریقہ باقی بچ گیا تھا وہ یہی تھا جس کا آغاز ہوگیاہے۔

زہری کے باشعور لوگوں! اگر زہری کو قندوز، لال مسجد، وزیرستان اور شمالی افغانستان بنانے میں راضی ہو، تو اقراء ادارہ خیبر پختون خواہ، چمن، کوئٹہ سے ہوتا ہوا، آپ کے گھر کے آنگن میں بھی اب موجود ہے، آنے والا نسل منصور اختر بن کر ابھرےگا۔ اب یہاں بھی فرخندہ جیسے معصوموں کا جنازہ، عورتیں اُٹھائیں گی۔ سائنس اور عصری تعلیمات کی بنیاد رکھنے والوں کو نازیبا الفاظوں سے نوازنے والوں سے یہ توقع بالکل نہیں ہوسکتا کہ وہ امام حسنین، جیسا باضمیر اور سچا یا کوئی اسٹیفن جیسا سائنسدان یہاں سے پیدا کریں گے۔