ہیومن رائٹس کوآرڈینیشن کمیٹی اور سندھی یوتھ ایکشن کمیٹی کی جانب سے فورسز کے ہاتھوں سندھ بھر سے ساٹھ سے زائد سیاسی ، سماجی ، ادبی ، قلمکار ، صحافی اور قومپرست کارکنوں کی بازیابی کے لئے حیدرآباد پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا گیا ہے ۔
احتجاج میں سندھ کے سارے سیاسی جماعتوں نے مسنگ پرسنز کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
احتجاج کے منتظم سندھ کے نامور دانشور جامی چانڈیو اور سماجی رہنما پنھل ساریو تھے ۔
احتجاج کے موقع پر سندھ بھر سے گمشدہ قومپرست کارکنان کی خاندانوں کے افراد نے وائس فار مسنگ پرسنس آف سندھ کی رہنما سسئی لوہار ، نیلم آریجو ، سجاد ایوب کاندھڑو ، مارئی جروار اور دیگر نے اپنے پیاروں کی تصویریں لیکر بڑے تعداد میں شرکت کی ۔
جیئے سندھ قومی محاذ (آریسر) کے قائم مقام چیئرمین امیر آزاد پنھور ، جسقم (بشیرخان) کے چیئرمین صنعان خان قریشی اور ڈاکٹر نیاز کالانی ، جیئے سندھ محاذ کے چیئرمین ریاض چانڈیو ، سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی ، سندھ یونائیٹیڈ پارٹی کے رہنما روشن برڑو اور دودو مہیری ، عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما بخشل تھلھو ، عوامی جمھوری پارٹی کے رہنما ابرار قاضی ، جیئے سندھ تحریک (کرنانی) کے سورھیہ سندھی ، ثناء اللہ امان ، نامور ادیب تاج جویو ، سماجی رہنما امر سندھو ، عرفانہ ملاح ، مھیش کمار سمیت سندھ کی ساری سیاسی سماجی ، وکلاء اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنان نے بڑے تعداد میں شرتک کی ۔
احتجاج میں ایک ڈکلیئریشن پاس کیا گیا کہ پاکستانی فورسز کہ ہاتھوں سندھ بھر سے لاپتہ کئے گئے 60۶۰ سے زیادہ سیاسی سماجی اور قومپرست کارکنان سمیت ادیبوں ، قلمکار، صحافی اور انسانی حقوق کے کارکنان کو فوری طور پہ بازیاب کیاجائے اور ان پر اگر کسی بھی قسم کا کوئی بھی کیس ہے تو پاکستان کے اندر ہر قسم کی عدالتیں موجود ہیں ، قانون ہے ، انہیں عدالتوں میں لایا جائے ۔ باقی اس طرح اٹھاکر گم کردینا انسانی حقوق کی پامالی ہے ، اور جبری گمشدگیوں کے عمل کو اقوام متحدہ اور عالمی ادارے بھی دہشتگردی قرار دے چکے ہیں۔
احتجاج کے شرکاء عالمی اداروں سے مطالبہ کیا کہ سندھ سے گمشدہ افراد کی آزادی کے لیئے اقدام اٹھائے جائیں۔
جبکہ دوسری جانب کراچی ملیر پریس کلب ، خیرپور میرس ، قاضی احمد ، ڈوکری ، نصیرآباد ، وارھ ، فیض گنج ، اور سکھر سمیت سندھ کے دیگر کئی شہروں میں احتجا ج کیئے گئے۔