سلمان بادینی کا قاتل کون
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم
بلوچستان، جہاں تاریخ کے ایک نازک صورتحال کا سامنا کر رہی ہے، وہیں پر بلوچ سماج بھی بےشمار چلینجز کا سامنا کر رہا ہے۔ معاشی بدحالی سے لیکر ذہنی غلامی جیسے بے شمار مسائل نے آج بلوچ سماج کو آلودہ کردیا ہے۔ جہد آجوئی کے شروع ہونے سے ہی قابض ریاست بلوچ سماج پر مختلف شکلوں میں حملہ آور رہی ہے۔ ایک طرف جہاں بلوچ نوجوان آزاد بلوچ وطن کے لیئے شعوری قربانی دیکر بلوچ وطن سے ریاستی جبر اور اس سے جڑی ظلم و جبر اور بدحالیوں کا خاتمہ کرنے کیلئے سربکف ہیں، تاکہ بلوچ قوم اور اسکی آنے والی نسلوں کی مستقبل کو محفوظ بنا کر ایک روشن خیال آزاد بلوچستان کا قیام عمل میں لاکر دنیا کی مہذب اقوام کی صفوں میں بلوچ قوم کو شامل کی جاسکے۔ آزادی کی اس جہد میں شامل ہر باشعور بلوچ جن میں ڈاکٹر، اساتذہ،اسٹوڈنت،کسان، مالدار الغرض بلوچ سماج میں شامل تمام ترقی پسند شامل ہیں۔ جنکو یہ احساس ہوچکا ہے کہ پاکستانی غلامی سے نجات ہی خوشحالی، امن اور ترقی کے باب بلوچ قوم کے لیئے کھولیں گے۔ پاکستانی سامراج بلوچ وطن پر قابض ہونے کے بعد سے ہی بلوچ دشمنی کے ہر اس پالیسی پرعمل پیرا ہے، جس سے بلوچ قوم کو نیست و نابود کر کے اسکی سرزمین پر قابض ہوکر یہاں کی قومی غیرت کو مٹا دی جائےاور لوٹ کھسوٹ کو دوام دیکر بلوچ رسم رواج کو ہمشہ کیلئے مٹایا جاسکے۔
پاکستانی قابض حکمرانوں نے بلوچستان کے نوجوانوں کو بس میں رکھنے کیلئے، بھوک افلاس اورمعاشی قتل عام کر کے بلوچ سماج میں چوری چکاری، بھائی کو بھائی کا دشمن، امن و سکون سے رہنے والے قبائل کو خونی جنگوں میں دھکیلنے جیسے مکرہ پالیساں ترتیب دیئے۔ بلوچ قومی تحریک کبھی کمزور تو کبھی طاقت ور رہی۔ آج سے بیس سال قبل بلوچ سماج ان مسائل سے کافی دور تھا، لیکن ریاست نے آزادی کی پانچویں تسلسل کے اثرات کو کم کرنے کیلئے بلوچ سماج میں فرقہ واریت جیسے نفرت انگیز عمل کے بیج بونا شروع کردیئے۔ جس کا پہلا شکار پنجاب کے دینی مدرسوں میں پڑھنے والے بلوچ طلباء کو بنایا گیا۔اسکی ضرورت پاکستانی حکمرانوں کو دو وجہ سے پڑی، ایک تو افغانستان میں جاری جنگ جو پاکستان کی قبضہ گیریت کو بڑھاوا دینے کے لیئے اسلام کا نام استعمال کر کے بیگناہ افغانوں کا خون بہانے کیلئے اوردوسری جانب بلوچستان میں بلوچ قومی سوچ کو ختم کرنے کیلئے ان نوجوانوں کے ذہنوں میں اپنے ہی قوم سے نفرت اور حقارت کیلئے بلوچ سماج میں فرقہ واریت کو ہوا دیکر بلوچ ہونے کے احساس کو کمزور کیا گیا۔ تاکہ مناسب وقت پر ان نوجوان اورعلماء کو بلوچ قومی تحریک کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔
قابض ریاست نے معاشی ترقی کی کلید بھی بلوچ قوم سے چھین کر اپنے ہاتھ میں رکھ لی۔ بلوچ قوم کے معدنیات کو پنجاب اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر لوٹتی رہی۔ بلوچ قوم کے پاس معشیت کے دو دروازے بچے ایک کھیتی باڑی اور دوسری مالداری، ریاست نے انکو بھی ختم کر کے بلوچ سماج کو روزی روٹی کا محتاج بنادیا۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کر کے کسانوں اور زمینداروں کو نان شبینہ کے لیئے دربد کی ٹھوکریں کھانے کے لیئے چھوڑ دیا گیا۔ بلوچستان میں مالداری بلوچ معشیت کا ۹۰ فیصد ضروریات پوری کرتی تھی، جس کو بلوچ سرزمیں پر انسانیت کے قاتل ایٹمی دھماکے کرکے بلوچستان کو ہمیشہ کے لیئے خشک سالی کے حوالے کردیا گیا، تاکہ بلوچ قوم ہمیشہ پنجاب کے خیرات کو من و سلویٰ سمجھ کر تسلیم کرے۔ معاشی طور پر کمزور قوم اورسماج، تعلیم حاصل کرنے کے قابل نہیں رہتی ہے، جس سے آنے والی نسلوں میں قومی احساس اور شعور ختم ہو جاتی ہے۔
پنجاب سے جن دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو ریاست نے تیار کیا انکو بلوچستان میں مدرسے قائم کرنے کی چھوٹ دی گئی، تاکہ ریاست وسیع پیمانے پر بلوچ نوجوانوں کی سوچ کو قومیت اور قومی تحریکوں سے دور رکھ سکے اور پاکستانی قبضہ گیریت کو طول دی جاسکے۔
درج بالا تفصیلی تجزیے کا مقصد یہی ہے کہ آج ریاست بلوچ قوم اور بلوچ نوجوانوں کے خلاف مختلف محاز تشکیل دے چکا ہے ہے اور نوجوان جانے انجانے میں اس ریاستی کھیل کا حصہ بن کر اپنی زندگی کو عظیم قومی مقصد آزادی اور آنے والی نسلوں کی خوشحالی کے بجائے ریاست کے انسانیت دشمن اور بلوچ دشمن مقاصد کیلئے ضائع کر رہے ہیں۔
سلمان بادینی جیسے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ریاستی پراکسی وار کا حصہ بننا، ریاست کی ان خطرناک پالیسوں کے تسلسل کو فاش کرتی ہے۔ بحثیت بلوچ، ہمیں اپنے نوجوانوں اور بچوں کو ایسی سوچ اور کچاریوں میں بیٹھنے پر نظر رکھنی چاہیئے۔والدین دوست احباب اور خاص طور پر علماء حق کو ان طاغوتی قوتوں کے عزائم سے بلوچ قوم اور نوجوانوں کی رہنمائی کرنی چاہئے۔ آج اس بات پر سوچنا ہوگا کہ سلمان بادینی اور اس جیسے سینکڑوں نوجوانوں کا قاتل ریاست ہے یا بحثیت بلوچ ہم ان نوجوانوں کو ریاستی مکرہ و فریب کی پالیسیوں کی نظر ہونے سے نہ بچاسکے۔ بلوچ نوجوانوں کیلئے اپنی قومی آزادی سے بڑھ کر کوئی متبادل جہد نہیں ہوسکتی، جو انسانیت، امن اور خوشحال بلوچستان کیلئے راہ ہموار کر رہی ہے۔ بلوچ نوجوان اپنی حقیقی اور قوم دوست قومی تحریک میں اپنا مقام بنا کر دنیا میں بلوچ قوم اور وطن کا نام روشن کریں۔ ایسے افراد اور اداروں سے دور رہیں جو شدت پسند اور فرقہ واریت کے ذریعے انسانیت کا قتل عام کرنے کا درس دیں۔ بلکہ قابض ریاست اور اسکے مکار اداروں کے خلاف صف آراء ہوں، جنہوں نے بلوچ سرزمین کو بلوچ قوم کے خون سے رنگ دی ہے۔ ہزاروں نوجوانوں کو حق اور سچ کا ساتھ دینے پر مقتل گاہوں کی رونقیں بھڑائیں ہیں۔ ہر سلمان کو، ہر بادینی کو، ہر نوجوان کو، ہر بلوچ کو بلوچ قوم اور اپنی قومی غلامی کے خلاف لڑنا ہوگا تاکہ پھر کوئی سلمان کوئی بادینی ریاستی پالیسوں کی نظر نہ ہو۔خون بلوچ کا ہے۔ ہمارا ہے۔بلوچ کی ہر قطرہ خون کا بہانے کا ذمہ دار ریاست پاکستان اور اسکی پالیسیاں ہیں۔ جب ان پالیسیوں کو ختم کرنے یا پریشر کی صورت میں کچھ عرصہ کی خاموشی درکار ہو تو سلمان جیسے نوجوانوں کو قتل کر کے ریاست اپنی گلو خلاصی کرتا ہے۔ بلوچ نوجوان متحد ہوکر قومی سوچ و شعور کو بلوچ کے ہر گدان اور گلی میں پہنچا کر سینکڑوں سلمان اور بہادر نوجوانوں کو ریاست کے خلاف صف بند کروا کر قومی فریضہ نبھائیں۔