تیس ہزار کے مجمعے میں الجھی ہوئی تین بلوچ بہنیں
تحریر: شہزاد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم
گذشتہ روز پاکستان کے سب سے بڑے اور صنعتی شہر کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں پشتون قوم کے زیر اہتمام ایک جلسہ منعقد کیا گیا تھا، جس میں تقریباً تمام خدا ترس اور انسانیت دوستوں نے بھر پور شرکت کی تھی، حالانکہ ریاستی مشینری نے اس جلسے کو کئی طریقوں سے ناکام بنانے کی کوشش کی، ایک ہفتہ پہلے ملک بھر سے پی ٹی ایم کے کارکنان کو اغواء و گرفتار کرنا یا جلسے کی تیاریوں میں رولے ڈالنا شروع کردیا تھا۔
پختونوں کی جدوجہد ایک نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں قتل کرنے کے بعد ریاستی گنڈہ گردی کے خلاف ابھر کے سامنے آئی، جسے ماورائے عدالت قتل کیا گیا تھا، جس کی سزا ان دنوں راؤ انوار نامی شخص ائیرکنڈیشن روم میں کاٹ رہا ہے۔
وہ ائیر لائن جو سال کے بارہ مہینے خسارے میں رہتی ہے، جس کے پائلٹ بغیر سرٹیفیکیٹ کے پروازیں اڑاتے ہوں، جسکا کبھی ٹوائلٹ کا دروازہ ٹوٹا پایا جاتا ہے، تو کبھی اس میں سے چوہا دوڑیں لگاتا ہوا نظر آتا ہے، مگر قُربان جاؤں ان لوگوں کی بہادری پر جو جان کی پرواہ کئے بغیر اس میں سفر کرنے کے خواہشمند نظر آتے ہیں۔ پشتونوں کے لیڈر منظور پشتین نے بھی اسی ائیر لائن کا انتخاب کیا کہ وہ اسلام آباد سے کراچی تک کے سفر کو طے کریں، مگر پی آئی اے نے اپنی تمام کمزوریوں کو پسے پشت ڈالتے ہوئے وطن عزیز کے دفاع میں منظور پشتین کے ٹکٹ کو کینسل کردیا، خیر منظور پشتین تو مشکلوں کے سمندر میں تیرتے ہوئے کراچی کے ساحل پر بلا آخر آن پہنچا، مگر افسوس پی آئی اے ایک پیسنجر سے محروم رہا۔
جلسے میں تقریباً ہر قوم سے تعلق رکھنے والوں نے شرکت کی، جنہیں یہ محسوس ہوا کہ شاید اتنی بِھیڑ میں اپنی فریاد سُنانے کا انہیں بھی موقع مل سکے گا اور ریاست اس انسانی سمندر کے دباؤ میں آکر کوئی مثبت فیصلہ سنائے گا، تو وہ بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شریک ہوگئے، یعنی وہ بھی اپنے باپ، بھائی، خاوند یا کسی اور رشتہ دار کے باحفاظت بازیاب کیلئے آگئے تھے۔
خیر میں تو اس جلسے میں موجود نہیں تھا، مگر ہاں اس سوشل میڈیا کا شکر گزار ہوں کہ اپڈیٹ ملتی رہی اور یوں سمجھیں کہ ایک طرح سے میری شرکت بھی ہوگئی، حالانکہ دوستوں کے میسیجز آرہے تھے، کوئی کہہ رہا تھا کہ ہمارے شناختی کارڈ چھین لیئے گئے ہیں، تو کسی نے جلسہ گاہ تک پہنچتے پہنچتے اپنی خالی جیبوں کی پانچ چھ ناکوں پر تلاشی بھی کروائی، کسی کو دھماکے کا خوف تھا، کسی کی حالت گرمی اور پیاس سے خراب تھی اور بہت سوں کو گرفتار ہونے کا خدشہ من ہی من میں کھائے چلے جارہا تھا، مگر کیا کرتے وہ اپنے دماغ میں ایک ہی بات جما کر آئے تھے کہ بار بار مرنے سے تو اچھا ہے انسان ایک ہی بار مرجائے، یہ تو تھی پی ٹی ایم کے جلسے اور وہاں کے لوگوں کی صورتحال مگر میری پریشانی کا عالم کچھ مختلف تھا۔
جب مجھے معلوم ہوا کہ اس جلسے میں ہماری کچھ بلوچ بہنیں بھی شریک ہوئی ہیں، جنکا تعلق بلوچستان سے ہے، جن میں سیما بلوچ، حمیدہ بلوچ اور خدیجہ بلوچ شامل ہیں اور تینوں سینے میں ایک ہی درد لیئے وہاں پر آئی ہیں، ایک ہی فریاد، آنسو بھی ساتھ بہاتی نظر آئی اور ایک دوسرے کو تسلی بھی ساتھ دیتی دکھائی دیں۔ سیما بلوچ کے چہرے کی معصومیت،آنکھوں میں خوف اور الفاظ کی بے بسی نے میرا دل چیر کر رکھ دیا کہ جو بہن شاید اپنے علاقے کے بازار تک نہیں گئی ہو، اس کو اس ظالم سماج نے کہاں سے کہاں لاکر کھڑا کردیا، مگر ان تمام حالات میں اتنا بڑا سفر طے کرکے یہاں آنا میری نظر میں خود انکی کامیابی ہے۔
اپنوں کی جدائی کا درد میں خوب جانتا ہوں، سیما بلوچ کے بہتے ہوئے آنسوؤں میں مجھے اپنی سگی بہن دکھائی دے رہی تھی، مگر افسوس میرے اس وقت کی بے بسی اور لاچاری اور آج میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آیا۔ سوشل میڈیا پر جب میں نے سیما بلوچ کا وڈیو دیکھا، جہاں پر وہ اپنے لاپتہ بھائی شبیر بلوچ کے متعلق لوگوں کو آگاہی دے رہی تھی، تو اسکی دھیمی آواز میں مجھے آسمان کے گرجنے کی آوازیں سنائی دی، اسکے مسلسل بہتے آنسو مجھے کسی سمندری طوفان اور تباہی کا خوف دینے لگے، اسکا افسردہ چہرا اپنے آپ میں ہی ایک عجیب داستان بیان کررہا تھا حالانکہ میری بہن خدیجہ ہو یا کہ حمیدہ سب کا درد برابر، سب میرے لیئے سد احترام مگر سیما بلوچ کا چہرہ میری نظروں سے ہٹ نہیں رہا۔ میں صغیر بلوچ، عاصم بلوچ یا شبیر بلوچ تینوں کی بازیابی کے لئے دعا گو ہوں، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان تین بہنوں کے ہمراہ میرے قوم کے تیس جوان بھی وہاں پر دکھائی نہیں دیئے۔
سہراب گوٹھ سے کچھ میل دور پر بننے والے بحریہ ٹاؤن کی خوبصورتی دیکھنے اور وہاں پر ناچ اور گانے سے لطف اندوز ہونے والے میری بلوچ قوم کے نوجوان ان بہنوں کے آنسوں پونچھنے کیوں نہیں آئے؟
تیس لاکھ بلوچوں کی آبادی میں سے تیس بلوچوں نے بھی وہاں شرکت کیوں نہیں کی؟ وہ معصوم اور بےبس لڑکیوں سے لاکھ کوئی ہمدردی کرنے والے وہاں موجود ہوتے مگر انکی نظریں اپنوں کے متلاشی تھے، کہ شاید شبیر، صغیر یا عاصم کے روپ میں ابھی انکا کوئی بھائی آکر انکو حوصلہ دے سکیں، مگر افسوس ہم اتنے بے حس ہوچکے ہیں جو قومیں ہم سے سیکھ کر سیاسی اور ادبی میدان میں آئے اور ہماری مثالیں اپنی محفلوں میں سنا کر آپس میں منظم اور متحد ہوئے، مگر ہم دن بہ دن آپسی دوریوں کا شکار ہوتے ہوئے ہم نے خود کو سرحد کے اس کونے پر لا کھڑا کردیا ہے، جہاں پر ماسوائے تاریکی کے اور کچھ بھی نہیں۔
یہاں پر میرا مقصد صرف کراچی کے بلوچوں کی طرف اشارہ کرنا نہیں بلکہ میں کراچی میں تربت، آواران، گوادر، زہری ، لسبیلہ، کوئٹہ، نال اور بلوچستان بھر سے کراچی کے پوش علاقوں میں آباد ہونے والے ان بلوچوں سے بھی گلہ کررہا ہوں جنکی کہی باتیں اس ریاست میں سنی اور مانی جاتی ہے، صرف یہ کہنا کافی نہیں ہوگا کہ کراچی کے بلوچ پیپلز پارٹی کے صفوں میں شامل ہوکر بلوچستان کے جدوجہد سے دور ہوگئے ہیں، میرا سوال مکران کے ان لوگوں سے بھی ہے جو کراچی شہر میں بڑے بنگلے بنا کر دم دباتے پھر رہے ہیں، انکی غیرت کیوں نہیں جاگی تربت سے آنے والی ان معصوم بچیوں کی آمد پر؟ ان تمام سوالات کا حل ہمیں فیسبک پر دا سنگ آزادی دا لکھنے سے نہیں مل سکتا بلکہ اس کے لیئے اب بلوچوں کو کسی بین الاقوامی لیڈر کا مطالعہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ جن پختونوں، مہاجروں اور سندھیوں نے بلوچوں کے مثبت عمل سے متاثر ہوکر تحریکیں چلانا سیکھیں، بس تھوڑا سا وقت نکال کر پھر انھی کہ پاس جاکر اپنی یاداشت کو واپس لانے کے لئے اپنے ہی کئے گئے ماضی کے مثبت فیصلوں کو دوبارہ سیکھ کر ایک اچھے اور منظم لائحہ عمل ترتیب دیکر اپنی مظلوم قوم کو ان مصائبوں سے آزاد کروائیں۔