بیٹیوں کی چادر ہٹا کر ان پر ٹارچ مارتے ہیں اور پوچھتے ہیں بھائی کہاں ہے

307

گذشتہ ڈیڑھ ماہ میں کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال کے بلاک 13 ڈی سے مبینہ طور پر اب تک 24 نوجوان ‘اٹھائے’ گئے ہیں اور یوحنا آباد کے نام سے معروف اس علاقے میں زیادہ تر آبادی مسیحی برادری سے تعلق رکھتی ہےـ

مبینہ طور پر ‘اٹھائے’ جانے والے افراد کے اہلِ خانہ کے مطابق ‘پولیس اور سادہ لباس میں ملبوس افراد صبح ساڑھے چار بجے گھروں کے تالے توڑ کر گھس آتے ہیں اور گھرمیں موجود لڑکوں کو لے جاتے ہیں’۔

کارروائی کے دوران گھر میں موجود خواتین کے مطابق ‘ 15، 16 افراد صبح ساڑھے چار سے پانچ بجے کے درمیان گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور اگر دروازہ بند ہو تو تیز دھار آلے کے ذریعے تالا یا دروازے کے کنڈے کاٹ کر گھر میں داخل ہوجاتے ہیں’۔

یوحنا آباد کی 75 سالہ بشیراں بی بی نے بتایا کہ ‘ان کے ساتھ ایک شخص بھی موجود ہوتا ہے جس نے چہرے پر سیاہ کپڑا ڈالا ہوتا ہے۔’

علاقے کے مکینوں کا کہنا ہے کہ یہ وہ شخص ہے ‘جو علاقے میں چوری چکاری کے مقدمات میں اکثر پکڑا جاتا ہے’۔

بشیراں بی بی کا کہنا ہے کہ ‘پولیس اور سادہ لباس اہلکار اس کو گرفتار ہونے والے شخص کی تصویر دکھاتے ہیں اور پھر اس کی نشاندہی پر مخصوص گھروں سے لڑکے اٹھائے جاتے ہیں۔ آٹھ مئی کو ہونے والی گرفتاریوں میں ایک 15 سالہ بچے کو امتحان سے ایک دن پہلے گرفتار کیا گیا۔’

بشیراں بی بی نے کہا کہ ‘زیادہ سوال پوچھنے کی صورت میں گھر میں گھسنے والے مار پیٹ کرتے ہیں اور گندی گالیاں دیتے ہیں’۔

مبینہ طور پر حراست میں لیے گئے افراد کے رشتے داروں کے مطابق اب تک ایسی تین کاروائیاں ہوچکی ہیں جن میں 30 مارچ، 14 اپریل اور آٹھ مئی کو ہونے والی کاروائیوں میں مبینہ طور پر پولیس نے اب تک 24 لڑکوں کو بغیر کوئی وارنٹ دکھائے اٹھا لیا۔

ان سب لڑکوں کی عمریں 15 سے 31 کے درمیان بتائی جارہی ہیں۔

یوحنا آباد کے رہائشی نعمان گِل کے مطابق ان کے ‘چچا زاد بھائی سکندر اور چھوٹے بھائی سُمیت کو آٹھ مئی کو وردی میں ملبوس افراد نے صبح ساڑھے پانچ بجے ہونے والی کارروائی کے دوران گرفتار کر کے اپنے ساتھ یہ کہہ کر لے گئے کہ ان کو تفتیش کے بعد چھوڑ دیا جائے گا اور تاحال ان کا کوئی پتا نہیں ہے۔’

بی بی سی سے بات کرتے ہوئِے نعمان گِل نے بتایا کہ ان کے علاقے میں ان واقعات کے بعد خوف و حراس پھیل گیا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ‘ہماری خواتین رات بھر اس خوف سے جاگی رہتی ہیں کہ کہیں پھر سے وردی والے لوگ گھر میں نہ گھس آئیں۔ اگر ان لوگوں نے کچھ کیا ہے تو ان کو عدالت میں پیش کیا جائے، ہمارا مطالبہ صرف یہ ہے۔’

نعمان گِل کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر فرزانہ مسیح کا گھر ہے۔ ان کے مطابق ان کے بیٹے وسیم مسیح کو حال ہی میں تفتیش کے بعد چھوڑا گیا ہے۔

وہ بتاتی ہیں ‘واپس آنے کے بعد سے میرے بیٹے کی حالت تشدد کی وجہ سے خراب ہے جس کی وجہ سے اسے ہسپتال شفٹ کردیا گیا ہے۔ اس سے دورانِ تفتیش کہا گیا کہ چوری کا الزام اپنے سر لے لو، جب اس نے انکار کیا تو اس کو بہت مارا اور کرنٹ بھی لگایا۔’

فرزانہ نے کہا کہ ‘ہمارے بچوں نے اگر کچھ کیا ہے تو ان کو وارنٹ دکھا کر لے جائیں۔ ہمیں ان کے گرفتار کرنے کے طریقے سے اور غلط الزامات لگانے پر اعتراض ہے۔ ہماری بیٹیوں کے اوپر سے چادر ہٹا کر ان پر ٹارچ مارتے ہیں اور پوچھتے ہیں بھائی کہاں ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے پیسے اور موبائل فون بھی لے کر گئے۔ لیکن ہم گرفتار ہونے کے ڈر سے شکایت نہیں کر سکتے۔’

ان الزامات کے بارے میں جب ڈی آئی جی ایسٹ، ذوالفقار لاڑک سے پوچھا گیا تو انھوں نے ایسی کسی کارروائی سے انکار کیا۔

ان کے مطابق ‘یہ کارروائی ہمارے علاقے میں اور ہماری پولیس نے نہیں کی ہے۔ یہ لوگ مختلف علاقوں سے پکڑے گئے ہیں۔ مجھے ایسی کسی کارروائی کی خبر نہیں ہے۔ اگر ایسی کوئی کارروائی ہماری پولیس نے کی ہوتی تو ہمیں اس کی اطلاع ضرور ہوتی۔’

انھیں واقعات کے بارے میں جاننے کے لیے ایس پی گلشن، غلام مرتضیٰ بھٹو سےبار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کا موقف معلوم نہیں ہو سکا۔

اس بارے میں سماجی کارکن جبران ناصر نے کہا کہ ‘میں اس کارروائی کے لیے اغوا کا لفظ استعمال کروں گا کیونکہ جس طرح سے بغیر نمبر پلیٹ کے گاڑیاں آئیں اور جس طرح سے بغیر وارنٹ کے لوگوں کو گرفتار کیا گیا وہ غیر آئینی ہے۔ ساتھ ہی، ایف آئی آر نہیں درج کی گئی لیکن جن چار گرفتاریوں میں ایف آئی آر درج ہوئیں وہ اس واردات سے چند دن بعد اور مختلف علاقے کی بتائی گئیں۔’

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ‘جب ڈی آئی جی ایسٹ اور ویسٹ سے اس بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو مجھے بتایا گیا کہ ایسی کوئی کارروائی ان کے تھانوں میں موجود افراد نے نہیں کی جو ازخود تشویش کی بات ہے۔’

اہلِ خانہ کے مطابق اب تک چار لڑکوں کو کورٹ میں پیش کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر (147/2018) کے متن کے مطابق ‘سعید آباد پولیس نے کارروائی کر کے چار ڈکیت پکڑے’ حالانکہ ان چاروں افراد کے اہلِ خانہ کے مطابق ‘ان سب کو یوحنا آباد سے 14 اپریل کو گرفتار ہونے کے 6 دن بعد عدالت میں پیش کیا گیا اور الزامات بھی بے بنیاد لگائے گئے۔’

گرفتار افراد کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ ‘اب تک کسی پر جرم عائد نہیں کیا گیا لیکن پولیس کی تحویل میں تو کوئی بھی اقرارِ جرم کرے گا۔’

ایس پی بلدیہ ڈویژن، ڈسٹرکٹ ویسٹ کے آصف بھگیو کے مطابق گرفتاریوں کے نتیجے میں ملنے والے شواہد کی تحقیقات اب تک جاری ہیں۔ لیکن انھوں نے اس بارے میں اہلِ خانہ کی طرف سے اٹھائے ہوئے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔

یاد رہے کہ اسی نوعیت کے چند واقعات کراچی کے داؤد گوٹھ میں بھی پیش آئے ہیں۔

14 مئی کو تقریباً 15 افراد کے اہلِ خانہ کراچی پریس کلب کے سامنے پوسٹرز لے کر بیٹھے ہوئِے تھے۔ ان افراد میں زیادہ تر تعداد خواتین کی تھی جن کا تعلق ملیر سے تھا۔

پوچھنے پر ایک خاتون نے بتایا کہ ان کے علاقے ‘داؤد گوٹھ میں پچھلے دو ماہ میں 15 افراد کو گرفتا ر کر کے لے جا چکے ہیں۔’

ایک خاتون نے کہا کہ ان کے مطابق ‘ہمارے علاقے میں منشیات بییچنے والے عام ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر گھر میں منشیات بیچنے والے افراد موجود ہیں۔’

ان کے ساتھ بیٹھی حلیمہ بی بی کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ان کے ‘ماموں امام بخش اور دو بھانجوں، سکندر علی اور زبیر علی، کو 6 مارچ صبح ساڑھے پانچ بجے پولیس کے اہلکار گرفتار کر کے لے گئے۔’

‘ہمیں یہ کہا گیا کہ تفتیش کے بعد ان کو چھوڑ دیں گے لیکن اب اس بات کو دو ماہ اور گیارہ دن ہوگئے ہیں اور اب تک ملیر میں جتنے بھی تھانوں میں پتا کیا ہے ان میں سے کسی میں بھی ہمارے رشتہ دار نہیں ہیں۔’

اس بارے میں اب تک پولیس کی طرف سے کوئی جواب نہیں موصول ہو سکا ہے۔

کئی بار رابطہ کرنے کے باوجود بھی ایس ایس پی ملیر اور ان کے دفتر کی طرف سے جواب نہیں مل سکا کہ آخر یہ گرفتاریاں کیوں کی جا رہی ہیں۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے جبران ناصر نے کہا کہ ‘اس میں کوئی گروہ شامل ہے یا پولیس خود شامل ہے، یہ اب تک پولیس خود بھی واضح نہیں کر پارہی ہے جو کہ تشویش کی بات ہے۔’