بولتے کیوں نہیں مرے حق میں – آبلے پڑ گئے زبان میں کیا : حکیم واڈیلہ

1466

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

جون ایلیا نے یہ اشعار (بولتے کیوں نہیں مرے حق میں آبلے پڑ گئے زبان میں کیا) کن حالات میں یا کس کو مخاطب کرکے اورکیوں لکھے تھے شائد میں گمان بھی نہیں کرسکتا لیکن ان اشعار کی گہرائی کو ان میں چھپی درد اور خاموش فریاد کو نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں۔ یہ درد ہی تو ہے جو انسان کو اسکی زندگی کا اصل مقصدسمجھنے میں راہنمائی کرتی ہے، یہ درد ہی تو ہے، جو کمزور انسان کو بھی چٹان بنا کر کسی بھی سخت گیر فیصلہ کرنے کی صلاحیت بخشتا ہے۔

جو شخص کسی بھی قسم کے درد سے نا آشنا ہو اور ایک عام سی زندگی جی رہا ہو، تو اسکے لیئے دنیا ایک بے معنی شئے ہوگی اور وہ اپنے اردگرد کے حالات و واقعات کو نظز انداز کرکے ایک روبوٹ جیسی زندگی بسر کرتا ہے، جسکے زندگی کا مقصد چند ڈگریاں حاصل کرنا، ایک پر آسائش نوکری تلاش کرنا، شادی کرکے زندگی بھر کیلئے خود کام اور گھر کے سائیکل میں محدود ہوجانا، جیسا کہ اکثر و بیشتر عام انسانوں کی زندگی ہوتی ہے۔

لیکن وہ زندگی کسی بھی طرح سماج یا انسانیت کی فلاح کیلئے کوئی مثال نہیں بن سکتی۔ دنیا میں اکثر کامیاب لوگوں کی کہانیاں درد سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ پھر چاہے وہ ایک سپورٹس مین ہو، شوبز سے تعلق رکھتا ہو، بزنس مین ہو یا سیاسی شخصیت ہو، سب کی کامیابیوں کا راز ان کے درد اور درد سے پیدا ہونے والی انقلابی تبدیلی کی مرہون منت ہی ہے۔

درد کو بیان کرنے یا اس پر لکھنے سے پہلے درد کو محسوس کرنا بھی ہے اور آج جس درد کا ذکر کررہا ہوں اُس درد کو نہ صرف محسوس کرسکتا ہوں بلکہ اس درد کو لیکر آگے بڑھنے کی جدوجہد بھی جاری و ساری ہے۔ وہ درد ہے اپنے پیاروں کے اغواء کا درد، ان کے لاپتہ کیئے جانے کا درد، انکے بابت ہفتوں، مہینوں اور سالوں تک کسی بھی قسم کی معلومات نا ملنے کا درد۔

یہ وہ درد ہے جسے بلوچستان کی ہر ایک ماں، بہن، بیٹی، باپ، بھائی اور بیٹا محسوس کرتا اور اس کربناک درد سے گذر رہا ہے۔ اسی طرح کراچی یونیورسٹی کے طالب علم صغیر احمد بلوچ کے اہلخانہ بھی اسی اذیت ناک درد سے گذر رہے ہیں۔ صغیر جنہیں بیس نومبر دوہزار سترہ کو کراچی یونیورسٹی کے کینٹین سے پاکستانی ایجنسیز نے اٹھاکر لاپتہ کردیا اور ابھی تک انکے بابت کسی بھی طرح کی کوئی معلومات نہیں آئی کہ صغیر بلوچ کہاں ہے اور کس حال میں ہے اور کس جرم کی بنا پر دنیا کی نمبر ون ایجنسی کو ایک طالب علم کو اغواء کرنے کی ضرورت پیش آئی۔

صغیر احمد بلوچ کے اغواء کو پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے اور صغیر بلوچ کی ہمشیرہ حمیدہ بلوچ پچھلے پانچ مہینوں سے اپنے پیارے بھائی کی جبری گمشدگی کیخلاف اور بازیابی کیلئے سراپا احتجاج ہیں احتجاجی مظاہرے کرکے سوشل میڈیا کمپین کرکے اپنے بھائی کی گمشدگی کے درد کو تحریری صورت میں بیان کرکے اور اس کے یاد میں اشعار لکھ کر اپنے دکھ کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی آرہی ہے۔

مگر افسوس کے اس بہن کی صداوں کو سننے والا یا ان ناقابل برداشت دکھوں کا مداوا کرنے والا یہاں کوئی مسیحا موجود نہیں۔ چونکہ حمیدہ کا تعلق بلوچستان سے ہے تو انکے لیئے ریاست اور انکے اداروں کی جانب سے کسی بھی قسم کی ہمدردی اور صغیر کی بازیابی کیلئے کردار ادا کرنے کا امید لگانا وقت کے ضیاع سے زیادہ اور کچھ نہیں، کیونکہ بلوچ نوجوانوں کے اغواء میں پاکستانی فوج کو یہاں کی عدلیہ، میڈیا، نام نہاد سول سوسائٹی اور سیاست دان سب کی خاموش حمایت حاصل ہے۔

لیکن حیران کن طو پر بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں، میڈیا اور مہذب دنیا نے بھی اس انسانی حقوق کے سنگین مسئلے پر خاموشی اختیار کرکے ریاستی جرائم کو وسعت دینے کا موجب بن رہا ہے۔ حمیدہ بلوچ کی تمامتر امیدیں بلوچ قوم سے وابستہ ہیں کہ وہ انکی بازیابی کیلیے اپنا کردار ادا کریں۔ کیونکہ اس وقت تک حمیدہ جون ایلیا کے اوپر دیئے گئے اشعار سے آشنا ہوچکی ہوگی اور سمجھ گئی ہوگی کہ یہاں (اس ریاست میں) آبلے پڑے ہوئے زبانوں کے سوا اور کچھ میسر نہیں۔