بلوچ قومی تحریک کے مثبت اثرات – محراب بلوچ

262

بلوچ قومی تحریک کے مثبت اثرات

تحریر: محراب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ کالم

جہاں ایک انقلابی تحریک رونما ہوتی ہے، ضرور وہاں کے معاشرے میں لوگ سیاسی، سماجی، اخلاقی بے لگام حکمرانی کے مسلط کردہ جبری نظام کے خلاف برسرِپیکار ہوتے ہیں ـ اُسی قائم شدہ فرسودہ نظام کے مکمل ختم کرنے کا نام انقلاب ہےـ جہاں انقلاب سر اُٹھا تا ہے، بہت سے فرسودہ، بوسیدہ غیر ضروری روایات اپنی شرمندگی سے مرجاتے ہیں کیونکہ انقلاب اپنی روشنی سے حقائق کو سامنے لاتے ہوئے ہر چیز کا پہچان خود ہی کرتا ہے۔ وہ غیر ضروری مسلط کردہ تہذیب، کلچر، روایات وغیرہ ہوتے ہیں، وہ خود بہ خود انقلاب کے تفش سے جل کرمرجاتے ہیں۔

کہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ کلچر، تہذیب، رویات وغیرہ غیر ضروری ہیں۔ ان جیسی بہت سے اقدار پر قبضہ گیر اپنے مفادات کے خاطر زیردست، محکوم و مظلوم قوموں کو مزید پسماندہ اور فرسودہ بنانے کیلئے استعمال میں لاتا ہے، تاکہ مظلوم اقوم اُن غیر ضروری روایات کو اپنا عقیدہ بنائیں، اُن غیرضروری روایات سے جنون کی حد تک پیار کریں، سامراج اپنی پوری قوت ان جیسے اعمال کی جڑوں کو مضبوط سے مضبوط بنانے کیلئے استعمال کرتا ہے۔

دوسری طرف چور، ڈکیت، ٹھگ اور ڈاکوؤں کو چوری چکاری سے معاشرے میں گندگی پھیلانے کی چھوٹ دے کر ایسے حرکتوں کو ہوا دیتا ہے، تاکہ مظلوم قوم کے باسی اپنے قوم و قومیت کے جذبے سے فراموش رہیں، مختلف گھناؤنے اعمال میں شریک رہیں، ساتھ شمار ہو سکیں۔ بلوچستان کی آزادی کی تحریک کے شروعات سے پہلے چوری ڈکیتی زوروں پر تھی، تحریک جب اپنے عروج پر پہنچی تو ان سارے اعمال کا جنازہ آٹھ گیا۔

انقلابی جدوجہد بہتے پانی کی طرح ہے، جو کسی رستے کا محتاج نہیں رہتا بلکہ یہ اپنا راستہ خود ہی نکالتا ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں ہمیں مختلف انقلابی تحریکوں میں ملتی ہیں۔ ہم الجزائر کی مثال لیں، وہاں کے معاشرے میں عورتوں کے بےپردہ، بے نقاب گھر سے نکلنا محال تھا۔ یہ مجال کسی عورت کو نہ تھی کہ بے پردہ گھر سے باہر نکلے لیکن وہاں انقلابی جنگ جب اپنے عروج پر پہنچا تو اُن پردہ پوش عورتوں نے نقاب جیسے فرسودہ روایت کو توڑ کر، باقاعدہ گوریلا کیمپوں میں جنگی ٹرینگ لینا شروع کیا اور فرانسیی علاقوں میں انکا پوشاک پہن کر، انکی طرح گھوم کر ان پر حملے بھی کرتے۔ یہ عمل سامراج کی منہ پر تمانچے سے کم نہیں۔

اگر ایک قوم اپنے فرسودہ روایات کواپنا عقیدہ بنائے، تو وہ قوم جدید دنیا کے ساتھ جدید دنیا کے رفتار کے مطابق نہیں چل سکتا۔ پوری دنیا سے لاتعلق، اپنے رویات میں مگن رہتا ہے، جدید دنیا سے دور رہتا ہے، سامراج بھی یہی چاہتا ہے کہ مظلوم اپنے آنکھوں سے اصل سامراجی چہرے کو دیکھ نہ پائیں ـ سامراج ہر وہ طریقہ و عمل کو حرکات و سکنات دیتا ہے، جو مظلوم کو مظلومیت کا احساس تک نہ آنے دےـ

بلوچ قومی تحریک نے بھی ایسی بہت سی غیر ضروری روایات کو پامال کرکے رکھ دیا۔ پاکستان جب بلوچ سرزمین پر بزورِ طاقت قابض ہوا،تو اپنے قبضے کو دوام بخشنے کیلئے بلوچ سماج کو سماجی اور اخلاقی گراوٹوں میں پھنسائے رکھنے کیلئے چوری، ڈکیتی، اغواء برائے تاوان، منشیات وغیرہ جیسے اعمال کو کھلی چھوٹ دیکر عام کردیا۔ بلوچ قومی تحریک نے آکر بہت سے ایسے غلط رحجانات کو ختم کرکے رکھ دیاـ اسی طرح ریاست بلوچ عورتوں کو عورت کی نام سے چادر و چار دیواری میں بند رکھنے کی تگ و دو میں رہا ہے تاکہ وہ کوئی سیاسی کردار ادا نا کرسکیں۔

بلوچ قوم بنیادی طورپر ایک سیکولر اور روشن خیال قوم ہے، بلوچ قوم کا تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ قوم کی عورتوں نے جنگوں میں اپنے مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ ساتھ دیا ہے، بلوچستان میں مہمان نوازی میں عورتوں کا ایک اہم کردار ہےـ اگر کسی بلوچ کے گھر، کوئی بھی مہمان آئے گھر میں کوئی مرد نہ ہو، پھر بھی وہاں مہمان کو شرف دیتے ہیں۔ عورت خود حاضر ہوتے ہیں مہمان نوازی کیلئے۔ گھر میں مہمان کو مرد نہ ہونے کا احساس تک نہیں دلاتے ہیں۔ لیکن ریاستِ پاکستان کے قبضے کے بعد ریاست نے اپنے پالے ہوئے ملاؤں کو بلوچستان بھر میں تبلیغ کے بہانے بلوچوں کے روشن خیال اقدار کو ترک کروانے کا مشن سونپا۔ تاکہ بلوچ اپنے تاریخی سیکولر سوچ کو ترک کرکے سامراجی رائج کردہ قوانین کی پاسداری کریں۔ ملاؤں نے جگہ جگہ تبلیغ کیا کہ عورتوں کا گھر کی چادرو چاردیواری سے باہر رہنا گناہ ہے۔ عورتوں کو پردہ میں رہنا ہے، عورت بغیر پردہ رہنا بے عزتی کا باعث ہے۔ یہ خاص کر بلوچستان میں پاکستانی پالے ہوئے ملاؤں کے الفاظ ہیں ـ

بہت سی جگہوں پر مذہبی شدت پسندوں نے دھمکی دی کہ لڑکیوں کو نہیں پڑھایا جائے 2014 میں پنجگورکے ایک پرائیویٹ تعلیی ادارے پر مذہبی شدت پسندوں نے حملہ کیا۔ جہاں اکثریت بلوچ بچیوں کی تھی۔ اس حملے سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، گوادر میں ایک پرائیوٹ ادارے پر مذہبی شدت پسند داعش نے حملہ کرکے استاد زاھد آسکانی کو قتل کیا، جہاں طالب علموں کی اکثریت بلوچ بچیوں کی تھی اور آواران جھاؤ وادی میں 2012 کو ماسٹر کریم بخش سکنہ مشکے کو مذہبی شدت پسند جنداللہ کے کارندوں نے قتل کیا، وہاں اکثریت بلوچ لڑکیوں کی تھی، تو ایسے حملوں کا مقصد بلوچ لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھناہے۔ بلوچ قوم کو پسماندہ رکھنا ہے۔

ایسے حلموں کا مقصد ریاست کی طرف سے ایک واضح اشارہ تھا کہ بلوچ لڑکیاں اپنی پڑھائی کو یہاں روک لیں، اس عمل سے باز آجائیں۔ ایسے حملوں کے ساتھ ریاستی ملاؤں کا تبلیغ بلوچستان میں میں زوروں پر ہے، تاکہ لوگوں کی ذہنی تربیت کریں لوگوں مزید چادر و چار دیواریوں میں بند رکھیں ـ یہی ملا جو ایسے فتوے دیتے ہیں، یہ اکثر ریاستی مشینری سے تعلق رکھنے والے پنجابی ہوتے ہیں، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پنجاب میں عورت خود غیر پردہ ہے، یہ تبلیغ کرنے والے کیا وہاں یہ نظام رائج نہیں کرسکتے، وہاں ایسے تبلیغ دن رات نہیں کرتے کیوں؟ یہ صرف بلوچوں کیلئے ہے کیونکہ بلوچ کو ریاست نے تعلیم کے میدان سے دور لاکھڑا کیا ہے، بلوچ عورتوں کو تعلیم سے محروم رکھا ہے، لیکن بلوچ قومی تحریک نے ریاستی سارے حیلے، بہانوں کو خاک میں ملا دیا ہے۔

ریاستِ پاکستان نے بلوچوں کو بلوچ جد و جہد سے پہلے ایسے پسماندہ رکھا تھا کہ بلوچ لڑکیاں تعلیمی اداروں تک نہیں جاسکتے تھے، عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا باعثِ شرم محسوس ہوتا تھا، لیکن بلوچ قومی تحریک نے ایسے بہت سی فرسودہ روایات کو خاک میں ملادیا۔ ریاستی پردہ پاش کیاـ

بلوچ قومی تحریک آزادی کے رونما ہونے سے بلوچ خواتین تنظیم و پارٹیوں کا حصہ بنے، اس سے قبل ایسا کوئی رحجان ہی نہیں تھا۔ بی ایس او، بی این ایم، بی آر پی میں بلوچ فیمیل ممبروں کا اچھی خاصی تعداد بڑھی گئی۔ یہ بلوچ قومی تحریک کے بدولت ہے، ایک پسماندہ معاشرے کے خواتین کو تنظیم یا پارٹیوں میں شامل کرنے تیار کرنا، تحریک کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔

بی این ایم و بی ایس او نے معاشرے میں ایسے معاملات میں اہم کردار ادا کیا ہے، بلوچ ماں بہنوں کے دل و دماغ سے وہ خوف نکل گیا ہے، جو ریاست نے اپنے مشینری کے زریعے پھلادیا تھا۔ بلوچ قومی تحریک نے وہ دیواریں توڑ دی ہیں، جو عورت کو روایت کے قید میں بند رکھتے ہیں۔ ہمارے سامنے بانک کریمہ بلوچ، فرزانہ مجید اور بہت سی خواتین کی مثالیں موجود ہیں۔

اب بلوچ لڑکیاں اپنی تعلیم کے معاملات میں دریا پار کرنے کیلئے تیار ہیں، اب مذہبی فرسودہ نظام سے دور بھاگ چکے ہیں، اب کسی ملا کی حیلے و فریبوں میں نہیں آتے ہیں، اب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری پسماندگی کی وجہ ریاست پاکستان ہے، ابھی تک ریاست کی طرف سے ایسے اعمال ختم نہیں ہوئے ہیں۔ اب تک ریاست اپنے کاسہ لیسوں کے زریعے یہ عمل جاری و ساری رکھے ہوئےہے۔

پچھلے اٹھارہ سالوں سے یہ فرسودہ روایات نے دم دوڑ دیں ہیں، اب بہت کم جگہ، بہت کم علاقے ملتے ہیں، جہاں بلوچ لڑکیوں کے والدین اپنے بچیوں کو تعلیمی اداروں سے روکتے ہیں، پہلے تو مذہبی ملاؤں کے بے حدا فتووں سے بلوچ لڑکیاں روایت کی قید میں بند تھیں۔ تعلیم حاصل کرنے سے گریزاں تھے۔ بلوچ سیاسی پارٹیوں کو تربیتی عمل جاری رکھنا چاہیئے، عوام کو مزید پختہ بنائیں، تاکہ ریاستی چالوں میں نہ آئیں۔ خاص کر بلوچ لڑکیوں کو اپنی تعلیمی سرگرمیاں مزید بڑھانی چاہئیں تاکہ اپنے معاشرے میں فرسودہ ذہنیت کی پوری طور خاتمہ کرسکیں، خود اپنے قوم کی تقدیر بدلیں، اپنے معاشرے میں انقلاب لائیں۔