بلوچ قبائل کا آپسی کُشت و خون
تحریر: سیم زہری
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
دوستو! بلوچ معاشرہ، قبائلی سیٹ اپ، آپسی تعلقات و رنجشوں خاص کر قبائلی جنگوں بابت ہمارے دوستوں نے گذشتہ چند سالوں میں بہت کچھ لکھا ہے کہ دشمن ہمارے بھائیوں کو کیسے ہمارے خلاف استعمال کرتا ہے. مکران میں ایوب بلیدی کا قتل، رند رئیسانی بگٹی قبائل کی آپسی رنجشیں، لانگو قبیلے کا اپنے تمام سرکردہ شخصیات کو بے دردی سے قتل کرنا، کرخ زیدی میں ساسولی قبیلے کی لڑائی، مینگل سناڑی قبیلے کی لڑائی مردانشئی محمد حسنی، زہری میں قادر زرکزئی، وڈیرہ سلمانجو، ریاض زرکزئی سمیت جمالزئی قبیلے کا انسانیت کُش عمل ہم سب کے سامنے ہے۔
آج سے گیارہ سال قبل جمالزئی قبیلے کے اندر جنم لینے والی لڑائی کی شروعات ایک سیاہ کاری پر ہوئی، جس کے نتیجے میں اب تک درجنوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور اس میں حالیہ ایک مہینے سے کافی شدت دیکھی جا سکتی ہے. ایک مہینے کے اندر وڈیرہ اکبر جمالزئی کا اپنے بڑے بھائی امین، بھتیجے اور نواسے کو قتل کرکے ان کی زمینیں قبضہ کر کے بیٹھنا پھر بدنام زمانہ علی احمد مٹو جلال عرف جلو کا بھائی رحیم کا اپنے چچا زاد بھائی امین کے بدلے میں اسی کے بھائی اور اپنے چچا زاد بھائی اکبر کو بیٹے سمیت قتل کرنا، پھر اس قتل پر شادیانے بجانا بذات خود انسانیت کی تذلیل ہے. ( جمالزئی لڑائی میں سلمانجو قبیلے کے مولہ میں رہائش پذیر کچھ افراد بھی شامل ہیں، جو وڈیرہ اکبر کے خلاف تھے، اس مسئلے پر پھر کبھی بات کریں گے)
کیسے جاہل لوگ ہیں جو اپنے بھائی کو قتل کرکے اس کی لاش پر ہنستے ہیں، شغل کرتے ہیں. کسی باشعور معاشرے میں ایک مرغی ذبح کرنے کو لوگ برداشت نہیں کر سکتے اور ایک جاہل انسان اپنے بھائی کو قتل کرکے خوشی سے قبول بھی کر رہا ہے کہ یہ کارنامہ میں نے انجام دیا ہے. بدھ مت مذہب کے لوگ ساری زندگی چپل پہن کر باہر نکلتے ہیں اور شام کو اندھیرا چھانے کے بعد کبھی باہر نہیں نکلتے تاکہ کوئی حشرات الارض کیڑا مکوڑا پاؤں کے نیچے دب کر اپنی زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے اور ایک مخلوق زہری میں رہتی ہے جو ایک ہی گھر میں ایک مہینے کے اندر سات لاشیں اٹھانے کے بعد خوشی سے جھوم رہی ہے کہ یہ تیس مار خان میں ہوں۔
دوستو! یہ سب کہانی آپ لوگوں کی دیکھا دیکھی ہے اور بہت سے نوجوان اس بے معنی کہانی کو سن سن کر بڑے بھی ہو گئے. اس پر مزید بات کرنا وقت کا ضیاع ہے، البتہ اس کے پیچھے اصل محرکات کو سمجھنا ہم سب کے لیئے لازم ہے کہ پچھلے دس سالوں میں اس سیاہ کاری کے بعد قتل و غارت گری کے نتیجے میں کس کو فائدہ ملا، کس نے طاقت حاصل کی؟ کس نے نقصان اٹھایا اور خاص کر اب حالیہ دنوں میں اس بے معنی جنگ میں شدت کیوں آئی؟
اصل محرکات کو سمجھنے کے لیئے ایک بار پھر ہمیں پیچھے پلٹنا ہوگا، سیاہ کاری کے بعد جنم لینے والی اس لڑائی میں ایک ہی خاندان دو گروپ میں تقسیم ہوگیا تھا، ایک گروپ بابو دودا خان کی پناہ میں گھٹ پہنچ گیا اور دوسرا گروپ بوریا بستر باندھ کر انجیرہ نشین ہو گیا۔ کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے. ایک دوسرے کو مار کر کمزور کرتے رہے اور سرداروں کو مضبوط کرتے رہے. چونکہ جنگوں کو چلانے کے لیئے معیشت ایک اہم فیکٹر ہے، جس کے بغیر جنگ لڑی نہیں جاسکتی تو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کوئٹہ کرچی شاہراہ پر چوری ڈکیتیاں شروع ہوئیں. ان لڑائیوں کو جو دماغ پس پردہ بیٹھ کر ہینڈل کررہا ہے، اسے معلوم ہے کہ اب شطرنج کی چال کیسے چلانی ہے. قبائلی جنگوں میں یہی لوگ ایک دوسرے کو مار کر پھر پولیس میں ایک دوسرے کے خلاف ایف آئی آر کرتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں گرفتاری کا بھی خطرہ رہتا ہے اور اس خطرے سے بچنے کے لیے پنجابی فوج کے لیئے مخبری کرتے ہیں. کہانی کا اصل مدعا یہی ہوتا ہے، جسے چلانے کے لیئے پیچھے بیٹھا دماغ پلان کرتا ہے۔
آپ کو ہزاروں مثال دے سکتا ہوں کہ کیسے یہ قبائلی جھگڑے دشمن کے لیئے کارآمد ثابت ہو رہے ہیں، دشمن کا کام کیسے آسان ہوتا ہے. سردار اور سرکار آپس میں بیٹھ کر یہ طے کرتے ہیں کہ پہلے ان کو لڑایا جائے. پھر سردار کو اچھے خاصے غنڈے ملتے ہیں، جس سے وہ اپنی بدمعاشی چلا سکے اور سرکار کو بلیک میل میں اچھے مخبر اور ڈیتھ اسکواڈ والے ملتے ہیں. لانگو قبیلے کا نام بلوچ سرمچار شھید امیر بخش اور شھید مجید کی وجہ سے ایک اعلیٰ مقام رکھتا ہے. ان کے عروج کے دور میں لانگو کا آپسی پھر لہڑی قبیلے کے ساتھ جنگ کی تباہ کاریوں کی وجہ سے بلوچ جہد کو تازہ دم دستے اس لیئے نہیں ملے کیونکہ لوگ آپسی قبائلی جنگ میں گھرے ہوئے تھے. شور پارود میں بلوچ قومی فوج کا کیمپ بننے کے بعد دشمن نے مینگل سناڑی قبیلوں کے درمیان جنگ پیدا کرکے بلوچ نوجوانوں کو بے معنی جنگ کا ایندھن بنایا، آج یہی دونوں قبائل پنجابی فوج کے لیئے دلالی کرتے ہیں. میر قادر زرکزئی کا اپنے چچا زاد بھائی کو قتل کرنے کے بعد آج اس کا بھائی اسحاق ہم سب کے سامنے ہے. وڈیرہ سلمانجو کو قتل کرنے کے بعد اس کے بیٹے اور بھائی کو آپس میں لڑوا کر وڈیرہ احمد خان سے یہی دلالی کا کام لیا جا رہا ہے.
زہری میں سیاہ کاری کے بعد جنم لینے والی جنگ کا ایک گروہ جلال عرف جلو کی سربراہی میں خضدار شفٹ کیا گیا تاکہ بلوچ نوجوانوں کو اغواء کرکے دشمن کے ہاتھ میں دیں اور ان ہی کے ذریعے بہت سے ٹارگٹ کلنگ کروایے گئے. 19 فروری کو تراسانی واقعے میں کمانڈر شھید دلجان بلوچ اور شہید بارگ پر ہونے والے حملے میں اسی جمالزئی قبیلے کے ایک گروپ کا اہم سرغنہ اللہ بخش عرف الابُو حسرانی اپنے گروہ کے ساتھ شامل تھا اور فوج کے شانہ بشانہ کھڑے بلوچ ورنا پر تیر چلا رہا تھا. شھید دلجان واقعے کے بعد زہری میں قبائلی جنگوں میں ایک بار پھر تیزی کی وجہ بھی یہی ہے کہ بلوچ سرمچار اس علاقے میں موجود ہیں اور انہیں کیسے کنٹرول کرکے ان کے اپنے علاقے کے لوگوں کو ان کے سامنے کھڑا کیا جائے. ایسا نہیں ہے کہ اچانک وڈیرہ اکبر ناراض ہو کر اپنے بھائی امین کو مارا اور پھر غصے میں آکر رحیم نے امین کا بدلہ لے کر اکبر کو مارا بلکہ یہ ایک پری پلان واقعہ اور اس بار میر امان اللہ کو پنجابی فوج کی سربراہی میں واپس لاکر زہری میں بٹھایا جائے گا اور جمالزئی قبیلے کا ایک گروپ انجیرہ اور ایک گروپ نواب نوروز خان کے بیٹے کی سربراہی میں کام کرے گا اور کام وہی کرے گا جو پنجابی فوج چاہے گی یعنی بلوچ سرمچاروں کی مخبری۔