فرانسيسی صدر نے اس عمل کی سخت مذمت کی ہے، جس ميں ايک مقامی جريدے کے اشتہاری پوسٹر کو جنوبی فرانس ميں ايک دکان سے اس ليے ہٹوا ديا گيا کيونکہ اس ميں ترک صدر رجب طيب ايردوآن کو ايک آمر کے طور پر دکھايا گيا تھا۔
فرانسيسی صدر ايمانوئل ماکروں نے اس بارے ميں اپنے ايک ٹوئٹر پيغام ميں لکھا، ’’يہ بالکل ہی ناقابل قبول بات ہے کہ àLePoint نامی جريدے کے پوسٹرز کو اخبارات کی ايک چھوٹی سی دکان سے اس ليے ہٹا ديا گيا کيوں کہ آزادی اظہار رائے کے دشمن اس سے نالاں ہوئے۔‘‘ ماکروں نے يہ ٹويٹ پير اٹھائيس مئی کے روز کی۔
فرانس ميں شائع ہونے والے جريدے àLePoint کے اس ہفتے کے شمارے ميں ايردوآن کی تصويو کو ’ايک آمر‘ کے عنوان تلے چھاپا گيا۔ نيچے مندرجہ ذيل الفاظ بھی درج ہيں، ’’ايردوآن کتنے آگے تک جائيں گے؟ شاہانہ طرز زندگی کے ان کے تصورات، فرانس ميں ان کے نيٹ ورکس، الجزائر پر ان کی چڑھائی اور ان کے جرائم ۔۔۔ ‘‘ اس جريدے نے اداريے کے طور پر ايک خاکہ بھی شائع کيا جس ميں ترک صدر کا موازنہ سابق نازی جرمن آمر آڈولف ہٹلر سے کيا گيا ہے۔‘‘
جنوبی فرانس کے شہر ايوگنون کے نواحی علاقے ميں ايک چھوٹی سی دکان کے مالک نے دعویٰ کيا ہے کہ جريدے کے پوسٹر اپنی دکان پر لگانے کے نتيجے ميں ايردوآن کے حاميوں نے اسے ڈرايا دھمکايا اور يہ دھمکی بھی دی کہ اس کی دکان کو نذر آتش کر ديا جائے گا۔ بعد ازاں اس معاملے پر مقامی پوليس نے کارروائی کی اور متعلقہ دکان پر پوسٹر دوبارہ لگا ديا گيا۔ جريدے نے اس واقعے پر جاری کردہ اپنے بيان ميں کہا کہ اسے شرمندگی بھی اٹھانی پڑی اور اسے دھمکايا بھی گيا۔ بيان ميں مزيد کہا گيا ہے کہ مبينہ طور پر ترک صدر کی جماعت اے کے پی کے حاميوں نے سوشل ميڈيا پر ساميت مخالف جملے کسے، توہين آميز تحريريں لکھیں اور ڈرايا دھمکايا۔
يہ معاملہ گزشتہ قريب ايک ہفتے سے جاری تھا تاہم رواں ہفتے کے آغاز پر فرانسيسی صدر نے جريدے کی حمايت کر دی۔ انہوں اپنی ايک اور ٹویٹ ميں لکھا، ’’آزادی صحافت کی کوئی قيمت نہيں لگائی جا سکتی۔ اس کی عدم موجودگی کی صورت ميں صرف آمريت رہ جاتی ہے۔‘‘ ايمانوئل ماکروں نے پوسٹر ہٹانے کے عمل کو ناقابل قبول قرار ديا۔
ترکی ميں جولائی سن 2016 ميں فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد انقرہ حکومت نے وہاں وسيع پيمانے پر کريک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس دوران گرفتاريوں، قتل اور تشدد کا سلسلہ جاری رہا۔ اس سال مارچ ميں جاری کردہ ايک اور رپورٹ ميں بھی يہ کہا گيا کہ ترکی ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ گو کہ انقرہ حکومت ايسے تمام الزامات کو شروع ہی سے مسترد کرتی آئی ہے۔