امریکی حکومت نے ایران کے تین اداروں اور چھ افراد پر نئی پابندیاں لگا دی ہیں، جن کے متعلق حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے تہران کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا ہے۔
امریکی وزارت خزانہ نے بدھ کے روز جن تین گروپس پر پابندیاں لگائی ہیں ان میں ایران کے حکومت نواز بااختیار گروپ انصار حزب اللہ ، تہران کی اوین جیل اور حکومت کی سرپرستی میں قائم موبائل فون کے ایپ بنانے والی کمپنی ہانیستا پروگرامنگ گروپ شامل ہیں۔
پابندیوں کی زد میں آنے والے عہدیداروں میں سائبر ریسرچ کمیٹی کے سیکرٹری جنرل عبدالصمد خرم آبادی،السیبرانی سپریم فضائی کونسل کے چیئرمین ابو الحسن فیروز آبادی، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کارپوریشن کےچیئرمین عبد علی عسکری شامل ہیں۔ ان پر پرامن مظاہرین کو طاقت سے کچلنے میں مدد فراہم کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ارتکاب کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
غیر ملکی اثاثوں کے کنٹرول سے متعلق دفتر کے عہدے داروں نے انصار حزب اللہ کے تین لیڈروں، دو سرکاری عہدے داروں اور ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی کے ڈائریکٹر پر بھی پابندیاں لگائی ہیں۔
سرکاری عہدے داروں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے سینسر لگانے کی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔
امریکا کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں وزیر خزانہ سٹیون منوچن کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ایران کی حکومت اپنے قومی وسائل کا، جو عوام کی ملکیت ہیں، رخ موڑ رہی ہے اور انہیں اظہار کی آزادی دبانے کے لیے استعمال کر رہی ہے اور فنڈز کو سینسر شپ نافذ کرنے کے لیے مہنگے اور بڑے پیمانے کے اثرات مرتب کرنے والے ذرائع پر صرف کر رہی ہے۔
پابندیوں کے نتیجے میں نامزد گروپس اور افراد کے امریکا میں موجود اثاثے منجمد ہو جائیں گے اور امریکیوں کو عمومی طور پر ان کے ساتھ لین دین کرنے سے روک دیا جائے گا۔ ایسے غیر ملکی مالیاتی ادارے جو علم رکھتے ہوئے ان کی مادی مدد کریں گے، انہیں ثانوی امریکی پابندیوں کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں امریکی مالیاتی نظام سے ان کے رابطے منقطع ہو سکتے ہیں۔