آو! بی این ایم کے چھتری تلے ایک ہوجائیں – قاضی بلوچ

466

آو! بی این ایم کے چھتری تلے ایک ہوجائیں

قاضی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ سرزمین پر جبری قبضے کے ردعمل میں جب بلوچ جہد آزادی کا آغاز کیا گیا تھا، تو کافی نشیب و فراز آتے رہے۔ کبھی کوئی تھک جاتا، تو کوئی ڈر جاتا، کچھ لوگ بہکاوے میں آجاتے، تو کوئی چند مراعات اور پیسوں کی عوض خود کو اور اپنےضمیر کا سودا کردیتا۔ موجودہ جاری تحریک جو گذشتہ سترہ سالوں سے رواں دواں ہے، اس میں بھی ڈر، لالچ، تھکاوٹ، بہکاوے میں آنا یا پیسوں کی خاطر اپنی ضمیر کا سودا جیسے تمام جہتیں جاری و ساری ہیں۔ لیکن بلوچ قومی آزادی کے سیاسی جہدکاروں اور سرمچاروں کی بے پناہ قربانیوں، ہزاروں بلوچ نوجوانوں، بزرگوں، ماؤں، بہنوں اور بچوں کی پاکستانی ریاست اور اسکے پالے ہوئے ڈیتھ سکواڈز کے ہاتھوں شہادت اور ہزاروں کی تعداد میں زندانوں میں قید بلوچوں کی اپنی مادر وطن کیلئے اذیت سہنا اور ہمارے قائدین اور جہدکار ساتھیوں کی شب و روز محنت کے بدولت آزادی کی تحریک دن بہ دن مضبوط ہوتی جارہی ہے اور انشااللہ ہم اپنی منزل آزاد بلوچ سرزمین کو ضرور حاصل کرینگے۔

کچھ روز قبل ایک دوست محمد عمر بلوچ کا بیان نظروں سے گذرا جس میں لکھی کافی باتوں سے ایک حد تک میں بھی متفق ہوں، جب موجودہ تحریک کی بنیاد رکھی گئی تو اس میں شہید واجہ غلام محمد اور انکے ساتھیوں کا بہت بڑا کردار تھا، انہوں نے شب و روز محنت کرکے بلوچ قوم کو ایک پلیٹ فارم پر یکجاہ کیا۔

بلوچ قوم پر اس تحریک آزادی کی اہمیت کو اجاگر کرنے سمیت اور بی این ایم کے موقف کی پرچار جس کے مطابق” اس تحریک کی بنیاد بلوچ عوام نے رکھی ہے اور بلوچ قوم ہی اسے اپنے منزل مقصود بلوچستان کی آزادی تک پہنچائے گی۔ شہید واجہ غلام محمد اور بی این ایم کے جہدکاروں نے بلوچ تحریک آزادی اور بلوچ مادر وطن کی آواز کو ہر بلوچ گھر، گاؤں، محلے، گلی کوچوں اور شہروں تک پہنچایا۔ اس تمام صورتحال کو دیکھ کر ریاست اور اسکے آلہ کار نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک، حاصل بزنجو اور انکے حواریوں نے بی این ایم اور چیئرمین شہید غلام محمد پر طرح طرح کے الزامات لگاکر کافی پروپیگنڈہ کیا گیا۔ اپنے صفوں سے لوگ بی این ایم میں شامل کیئے لیکن بلوچ قوم انکی اصلیت سے آشنا ہوچکی تھی، اسی لیئے انکے تمام حربے اور سارے چال بری طرح سے ناکام ہوئے۔ پھر شہید چیرمین کو کراچی سے اغواء کیا گیا۔ لیکن بی این ایم کے ایماندار کارکنان نے اس کاروان کو روک نہیں سکے۔ شہید لالا منیر، شہید رسول بخش مینگل، شہید ڈاکٹر منان ، عصاءظفر اسیر رہنماء ڈاکٹر دین محمد اور اسی دوران سنگت خلیل بلوچ بھی بی ایس او سے فارغ ہوکر اپنے دوستوں کے ہمراہ بی این ایم کے پلیٹ فارم کا حصہ بن گئے، جس سے بی این ایم اور بھی مضبوط اور توانا ہوگیا۔ نو ماہ اسیری کے بعد جب شہید واجہ ریاستی اذیت گاہوں سے بازیاب ہوئے اور بی این ایم کے کامیاب کونسل سیشن کے بعد ریاست اور اسکے دلال نیشنل پارٹی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے اور انہوں نے پھر سے شہید واجہ کو شہید لالا منیر اور شہید شیر محمد کے ہمراہ تربت سے اغواء کرکے شہید کردیا۔

واجہ غلام محمد کی شہادت کے بعد لوگ جوق درجوق بی این ایم میں شامل ہونے لگے، جس سے ریاست اور اس کے زرخرید ڈاکٹر مالک اور حاصل بزنجو کی نیندیں حرام ہوگئیں اور انہوں نے بی این ایم میں پھوٹ ڈالنے کی خاطر اپنے کارندوں کے ذریعے قائدین کیخلاف پروپیگنڈہ مہم کا آغاز کیا۔ جس سے دوستوں کے درمیان بدگمانی پیدا ہونے لگی اور ایک ایسا ماحول بن گیا کہ دوست ایک دوسرے کی باتیں سننے کو تیار نہیں تھے اور جلتی میں تیل چھڑکنے کا کام ان لوگوں نے کیا، جو آج سرنڈر کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ عصاءظفر نے اسی وقت تحریک سے دستبرداری اختیار کرلی تھی اور کچھ دوستوں نے بی این ایم شہید غلام محمد کے نام سے خود کو الگ کرکے ایک تنظیم بنالی۔ یہ وہ دوست تھے، جو شہید چیئرمین سے کافی نزدیک اور قابل اعتماد ساتھیوں میں سے تھے۔ انہیں شہید غلام محمد سے عقیدت تھی لیکن ان میں کچھ دوستوں میں سیاسی ناپختگی تھی، جس کا فائدہ اٹھاکر کر چھوٹے اور حل شدہ مسئلوں کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ بی این ایم کو ایک مخصوص لابی بی این ایم کو آزادی کی جہد سے الگ کرکے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بد گمانیاں اور غلط فہمیاں دونوں ہی طرف سے دوستوں کے درمیان تھیں لیکن آج وقت نے یہ ثابت کردیا کہ یہ تمام غلط فہمیاں پروپیگنڈے اور سیاسی ناپختگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات تھے۔

جن دوستوں کیخلاف پروپیگنڈوں کا محاذ کھولا گیا تھا انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے بی این ایم اور بلوچ قومی تحریک کی اپنے خون سے آبیاری کی اور جن دوستوں کے متعلق غلط فہمیاں پیدا کی گئی ان تمام ساتھیوں کی دن رات محنت کے بدولت بی این ایم بلوچ جہد آزادی میں پہلے سے زیادہ سرگرم ہے۔ دوسری جانب بی این ایم ایس جی ایم سے منسلک دوستوں نے بھی اپنی بساط کے مطابق شہید قائد کی مشن کو آگے لیجانے کی کوشش کی، جس میں کافی دشواریاں اور سختیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا، جیسے کہ سفارتکاری اور میڈیا میں موجودگی سمیت دیگر مشکلات۔ موجودہ دور میں منظم سیاسی سفارتکاری اور مظبوط میڈیا کا ہونا لازمی امر ہے۔ پھر چاہے وہ میڈیا سوشل میڈیا کی شکل میں کیوں نہ ہو۔ اگر ہم شروعاتی مراحل میں ہی ضد اور انا سے بڑھ کر سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے تو شاید یہ مسائل جنم ہی نا لیتے اور پھر ہمارے درمیان دوریاں، غلط فہمیاں، بدگمانیاں پیدا ہی نہ ہوتے۔ آج میں اپنے تمام ساتھیوں سے یہ گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے ماضی کی غلطیوں اور تلخیوں کو بھلاکر پھر سے یک مشت ہوکر اپنے مشن کو جاری رکھنا ہوگا۔

ہمیں اپنے گھر بی این ایم کو پہلے سے زیادہ مضبوط کرنا ہوگا، جس کی بنیادوں میں ہمارے قائدین اور ساتھیوں کا خون شامل ہے۔ ہمیں بی این ایم جیسے ادارے کہ جس کاروان کا امیر ہمارے ہردل عزیز چیرمین شہید غلام محمد تھے، اس میں شامل ہوکر اس کاروان کو منزل تک پہنچانے کی خاطر مشترکہ جدوجہد کرنا چاہیئے۔ جیسا کہ شہید واجہ نے دشمن ریاست کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ “ ہم آزاد بلوچ سرزمین کے مالک ضرور بنیں گے”۔ ہم بی این ایم کے چیئرمین سنگت خلیل بلوچ سے اور بی این ایم کے تمام جہدکاروں سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے بچھڑے ہوئے دوستوں کو صفوں میں واپس لے کر آئیں ۔ غلطیاں تمامتر انسانوں سے سرزد ہوتی ہیں اور وہ غلطیاں انسان کو سکھانے کا کام کرتی ہیں، آج مجھ سمیت کثیر تعداد میں دوستوں کو اس بات کا اندازہ ہوا ہے، ہم سے جو غلطی ہوئی تھی، اس کا اثر اجتماعی طور پر بلوچ تحریک اور ہمارے اداروں پر مرتب ہوا تھا اور ان غلطیوں سے ہمیں سبق بھی مل چکا ہے کہ اپنا گھر ہی اپنا ہوتا ہے اور بی این ایم سیاسی حوالے سے ہمارا گھر ہے، جس کی مضبوطی کی لیئے ہمارے دوستوں نے اپنا خون بہایا ہے، ٹارچر سیلوں میں اذیت سہہ رہے ہیں۔ ہمیں بھی ان شہیدوں اور اسیران کے مشن کا حصہ دار بنائیں جسکی سربراہی آپ کررہے ہیں۔