آغاعابدشاہ بلوچ
تحریر: میرین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم
آغا عابدشاہ1980کوبلوچستان.کےعلاقےپنجگورمیں ڈاکٹرسعیدعلی کےہاں پیداہوئے، انہوں نےبنیادی تعلیم میٹرک تک ماڈل سکول پنجگور سے مکمل کیا اور علم کی پیاس بجھانے اور آگے پڑھنے کے لیئے ڈگری کالج پنجگور کا رخ کیا، وہاں سے انٹرمیڈیٹ اور گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی اور ماسٹرز شال بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی سے کی. انہوں نے باقاعدہ بی ایس او میں 1993میں شمولیت کی اور جب بی ایس او مختلف دہڑوں میں تقسیم ہوا تو انہوں نے پارلیمانی اور باقی تمام دہڑوں کو مسترد کرتے ہوئے بی ایس او (آزاد) کے باشعور دوستوں کے ہمراہ ہوئے، جہاں وہ اپنی قوم کی بقاء کی جنگ سیاسی طور پر لڑنے کےلیئے بی ایس او (آزاد) کی پلیٹ فارم سے سیاست کرنے لگے، جوبلوچ قوم کی مستقبل اور آجوئی کیلئے متحرک تھی۔
وہ اپنے انتھک محنت اور خلوص کی وجہ سے 2006 کے کونسل سیشن میں بھاری اکثریت سے ووٹ لیکر بی ایس او آزاد کی وائس چیئرمین منتخب ہوئے، انہوں نے اپنی قومی فکر، علم و زانت اور محنت سے بی ایس او کو بلوچستان بھر میں فعال کرنے کی کوشش کی اور بہت حدتک اس میں کامیاب رہے۔ اسطرح وہ 2009 میں طلبہ سیاست سے فارغ ہونے کے بعد بلوچ نیشنل مومنٹ (بی این ایم ) کا حصہ بن گئے، بی این ایم کے سنٹرل کمیٹی میں قومی جہد کو آگے لیجانے میں اپناکردار ادا کیا. انہوں نے تمپ میں شہید خالد اور شہید دلوش کے برسی کے مناسبت سے منعقدہ ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ جہد شعوری اور سائنسی بنیاد پر رواں دواں ہے، قومی کاز کے لیئے نوجوان مختلف طریقے سے جہد کررہےہیں۔
شہادت کے فلسفہ پر بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا تھا کہ “مرنا ایک بہت مشکل عمل ہے، لیکن وہ سرمچار, بلوچ نوجوان جو جواں مردی سے اپنے زندگی کی نظرانہ پیش کررہے ہیں، اس سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ مرنا آسان ہے، اگر وہ مقصد کی خاطر, قومی خوشحالی کی خاطر ہو۔”
یقیناً شہادت (مرنا) عظیم ہے، اگر قومی مقصد کی خاطرہو، انہوں نے کہا کہ بی ایس او (آزاد) قومی جہد میں بہت اہم کردار ادا کررہا ہے، مزید کہا کہ یہ جہد آنے والے کل کی خوشحالی کےلیئے ہے، اس جہد کی ہربلوچ کو حمایت کرنی چاہیئے اور ہر بلوچ کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔
انہی کا ایک قول ہے کہ “ہربلوچ چاہے وہ لکھاری, شاعر, ادیب, استاد,ایک ماں, اور بہن ہو اگر وہ اپنی حیثیت اور بساط کے مطابق اپنا حصہ ڈالے، تو یہ میرا ایمان ہے کہ بلوچ کاز اپنی کامیابی کی طرف ایک قدم آگے بڑھیگی۔”
آغا اپنی زندگی میں قوم کی خوشحالی اور آزادی لےلیئے ہمیشہ سرفہرست رہے ہیں، یقیناً آپ نے جو قربانیاں دی ہیں، وہ تاریخ میں رقم ہیں اور کھبی بھی فراموش نہیں کیئے جائینگے، انہوں نے طلبہ سیاست سے لیکر ماس سیاست تک بلوچ قومی کاز کی سیاست کی، ان کی بلوچ کاز سے لگاؤ نے دشمن کی نیندیں حرام کردیں تھیں. دشمن کو ان سے خوف, خطرہ محسوس ہوتاتھا کیونکہ وہ شعور و فکر کو پروان چڑھارہے تھے۔
اسطرح پاکستان کے گماشتہ بندوق بردار ایجنسیز نے 15 اگست 2010 کو انہیں، انکے دوستوں ماسٹر سفیر بلوچ, ماسٹر عبدالستار کے ہمراہ دن دھاڑے چتکان بازار پنجگور سے اغوا کرلیا، 9 ماہ تک انہیں ٹارچرسیل میں دوستوں کے ہمراہ اذیتں دیتے رہے لیکن وطن مادر کے بہادر بیٹوں نے دشمن کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کردیا، دشمن نے، انہیں مارکر پنجگور کے کسی ویرانے میں پھینگ دیا تھا، 11 مئی 2011 کو ان کی گولیوں سے چھلنی مہینوں پرانی لاشیں انکے ورثہ کو ملیں، جنہیں بعد میں پنجگور کے علاقے چتکان میں دفنا دیا گیا۔