ٹڑانچ – دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

389

ٹڑانچ

دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

بہزاد دیدگ بلوچ

ٹڑانچ میں جب چند دنوں کے اندر ہی 90 سے زائد لوگ شدید بیمار ہوکر قریب المرگ ہوگئے اور سات وفات پاگئے، تو یہ اس چھوٹے سے گاؤں کیلئے قیامت صضریٰ کا منظر تھا۔ پوری دنیا سے کٹا ہوا یہ گاؤں، جہاں نا فون کی سہولت ہے نا مبائل اور نا ہی شہروں سے ملانے کیلئے کوئی سڑک، ایسی صورت میں انکی پوری دنیا چار سو گھرانے پر ہی مشتمل ہے، جو 30 سے 40 گھروں پر مشتمل چھوٹے چھوٹے بستیوں کی صورت بکھرے ہوئے مختلف جگہوں پر ایک دوسرے سے قریب قریب آباد ہیں اور سب کسی نا کسی طرح آپس میں رشتہ دار ہیں۔ یہی انکی پوری دنیا ہے اور اچانک سب ایک ایک کرکے بسترِ مرگ پر پڑنے لگے، یہاں نا کوئی ڈاکٹر میسر ہے اور نا ہی کوئی ہسپتال کہ کسی کو اس غیبی بیماری کی وجہ معلوم ہوسکتا۔

ٹڑانچ بلوچستان کے ضلع آواران کے تحصیل جھاؤکا ایک علاقہ ہے، جو مشہورشکار گاہ درْون کے پہاڑی سلسلے میں چھوٹے چھوٹے گاؤوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ معمولی ضروریاتِ زندگی کے حصول تک کیلئے لوگوں کو گھنٹوں، کبھی کبھی دنوں اپنے اونٹوں، گدھوں یا پیدل چل کر قریب ترین واقع شہر بیلہ تک جانا پڑتا ہے۔

” یہاں کے کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ شاید جنوں کا سایہ ہے، دم درود اور تعویز کرنے لگے، جب ایک خاتون اور بچہ فوت ہوگیا، تب گاؤں کے کچھ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کچھ مریضوں کو علاج کیلئے حب چوکی لے گئے، تب پتہ چلا کہ مسئلہ پانی میں ہے اور اسی وجہ سے لوگ بیمار ہورہے ہیں، لیکن پانی کے بغیر زندہ بھی تو نہیں رہ سکتے، وہ تو پیتے رہیں گے۔” یہ باتیں حنیف کی تھیں، جو ایک خلیجی ملک میں محنت مزدوری کرتا ہے اور حال ہی میں طویل عرصے بعد اپنے گاوں گھر والوں سے ملنے لوٹا تھا۔

بلوچستان کی 85 فیصد سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، آلودہ پانی پینے کی وجہ سے لوگ بہت سے خطرناک بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، جن میں نساء، گیسٹروٹینٹائٹس، ٹائیفائڈ، کرائٹساسیسڈڈیڈیم انفیکشن، گیریڈیاس، آنت کے کیڑے اور ہیپاٹائٹس وغیرہ شامل ہیں۔ ان بیماریوں کی وجہ سے روزانہ بلوچستان میں کئی جانیں ضائع ہوتی ہیں، خاص طور پر ان بیماریوں سے بچوں کی اموات میں تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

زندگی کی تمام سہولیات سے محروم ٹڑانچ بھی اپنی پیاس بجھانے، اسی آلودہ پانی کا شکار ہوچکا ہے۔ علاقے میں پانی کا کوئی انتظام سرے سے موجود نہیں ہے، پورے علاقے کے مکین بارش کے جوہڑوں میں جمع شدہ پانی استعمال کرتے ہیں، ایک ہی جوہڑکا پانی لوگ اورجانور استعمال کرتے ہیں۔ اتفاق سے یہ علاقہ ساڑھے پانچ سو ووٹ لیکر وزیر اعلیٰ بننے والے عبدالقدوس بزنجو کا حلقہ انتخاب بھی ہے لیکن یہاں ابتک واحد ناکافی مدد محض ایدھی فاونڈیشن کی طرف سے ہی پہنچی ہے۔ اب تو خدشہ یہ ہے کہ ہلاکتیں بڑھیں گی، اس سے بھی بڑا خدشہ یہ ہے کہ ٹڑانچ بلوچستان کا واحد دور دراز علاقہ نہیں جہاں لوگ زہریلا پانی پینے سے مررہے ہیں، آواران و مشکے اور گردو نواح سے اور بھی ایسی غیر مصدقہ خبریں موصول ہونا شروع ہوگئیں ہیں۔

کیا بلوچستان کا پرانا مسئلہ پسماندگی، اپنے وسائل پر بے اختیارگی اور آلودہ پانی ٹڑانچ واقعے کا سبب ہے؟ یا کوئی اور وجہ بھی ہوسکتا ہے؟ بلوچ سیاسی حلقوں میں ایک بہت ہی بھیانک الزام گردش کررہی ہے کہ اس علاقے کا پانی راتوں رات خراب نہیں ہوا، بلکہ ایک دانستہ عمل کے تحت علاقہ خالی کروایا جارہا ہے، علاقائی لوگ بھی دبے دبے الفاظ میں شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔ ان قیاسات و گمان میں کتنی حقیقت ہے؟

دلمراد بلوچ ایک متحرک سیاسی کارکن ہیں، وہ بلوچستان کی سب سے بڑی آزادی پسند سیاسی جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان بھی ہیں، انہوں نے ایک سیاسی کارکن کے حیثیت سے آواران و جھاؤ اور گردونواح کے علاقوں میں طویل وقت گذارا ہے اور ان علاقوں کا مشاہدہ بھی کرتے رہے ہیں، ٹڑانچ میں رونما ہوئے حالیہ واقعے پر دی بلوچستان پوسٹ نے ان سے گفتگو کرکے انکی رائے جانی ان کا کہنا تھا کہ “چند ہفتے قبل پاکستانی فوج نے اسی پورے علاقے میں آپریشن کرکے درجنوں لوگوں کو گرفتار کیا تھا، پھر انہیں تشددکے بعد رہاکیا تھا، رہا ہونے والوں کا کہنا تھا کہ انہیں اس لیئے گرفتار کرکے مارا پیٹا گیا کیونکہ فوج کا کہنا تھا کہ لوگ یہاں سرمچاروں کو سہولت فراہم کرتے ہیں، مقامی لوگوں کا کہناہے کہ پانی پہلے سے خراب تھی لیکن آپریشن کے بعد پانی پینے سے لوگوں کی طبیعت تیزی سے خراب ہونا شروع ہوگیا۔ ہمارا ماننا ہے کہ علاقے کو خالی کرنے کےلیئے پاکستانی فوج نے پانی میں زہریلی شے ملادی ہے تاکہ لوگ مجبورہوکر علاقہ چھوڑدیں۔”

آخر فوج لوگوں کو نقل مکانی پر کیوں مجبور کرنا چاہے گا؟ اس بارے میں دلمراد بلوچ نے ٹی بی پی کو بتایا: ” دراصل فوج پہاڑی سلسلوں میں آباد آبادیوں کو فوجی کیمپوں کے قریب منتقل کرنا چاہتاہے، پہلا مقصد متوقع نام نہادانتخابات میں لوگوں سے زبردستی ووٹ ڈلوانا ہے، دوسرا مقصد پہاڑی سلسلوں میں آباد لوگوں کے بارے میں فوج سمجھتاہے کہ یہ لوگ سرمچاروں کی مدد کرتے ہیں، اس لیئے بلوچستان کے اکثرعلاقے بالخصوص آواران، کولواہ، جھاؤ، مشکئے، گچگ، راغئے کے پہاڑی سلسلوں میں آباد لوگوں کو فوج نقل مکانی پر مجبورکررہاہے، یہ پہلا واقعہ نہیں کہ ڈرانے دھمکانے کے باوجود جب لوگوں نے اپنے آبائی علاقے چھوڑنے سے انکار کیا ہو، تو پھر علاقے کے پانی کو زہر آلود کرکے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہو۔”

“تیسرامقصد، سب سے زیادہ بھیانک ہے، یہ علاقے پاکستان کے میزائل ٹیسٹنگ سائٹ کے قریب ہیں اور فوج اس میں مزید اضافہ چاہتاہے، اس لیئے آبادیوں کو مٹایا جارہا ہے۔” دلمراد بلوچ نے ان الفاظ کے ساتھ خدشات میں مزید اضافہ کیا۔

فوج کا عوام کے زمینوں پر قبضے کا بیانیہ شاید بہت سے ممالک میں حیرت اور اچھنبے کی بات ہو، لیکن پاکستان میں جہاں طاقت کے گڑھ پنجاب میں گذشتہ دو دہائیوں سے مزارعین احتجاج کررہے ہیں کہ فوج انکے زمینوں پر قبضہ کررہا ہے، حتیٰ کے انکے کئی افراد اسی ضمن میں جھوٹے کیسوں میں بند اور کچھ لاپتہ ہیں اور انجمنِ مزارعین پنجاب بڑی تعداد میں لاہور میں منظور پشتین کے جلسے میں شرکت کرتی ہے، تو پھر دنیا سے کٹے ہوئے بے آواز بلوچستان کے پسماندہ ٹڑانچ و گردونواح کو خالی کرنے اور اس پر قبضہ کرنے کی بات چونکا دینے والا انکشاف نہیں ہونا چاہیئے۔

اس سے پہلے پانی کو زہر آلود کرنے کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں، بلوچستان کے پہاڑوں میں فوج جب بھی بلوچ آزادی پسند مزاحمتکاروں کے خلاف آپریشن کرتی ہے، تو سب سے پہلے، پہاڑوں میں پانی کے واحد ذریعے یعنی قدرتی چشموں کو زہر آلود کیا جاتا ہے تاکہ مزاحمت کاروں کو پیاس یا زہر سے ماردیا جائے، لیکن پانی کے وہ ذرائع محض مزاحمتکاروں کے استعمال میں نہیں ہوتے پہاڑ نشین عام بلوچوں اور مال مویشیوں کے پانی کا واحد ذریعہ وہی چشمے ہوتے ہیں، مزاحمتکار تو نکل جاتے ہیں لیکن ابتک وہی زہرآلود پانی پینے سے بلوچستان میں درجنوں اموات ہوچکی ہیں، جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔

وجہ جو بھی ہو، ٹڑانچ کے لوگ مررہے ہیں، اور انہیں مرنے دیا جارہا ہے، مسئلہ محض آبی نہیں بلکہ اسکے پیچھے سیاسی و عسکری مفادات بھی چھپے ہیں۔