کُومی اتحاد بمقابلہ قومی اتحاد – شبانہ کُبدانی

880

کُومی اتحاد بمقابلہ قومی اتحاد

تحریر: شبانہ کُبدانی

دی بلوچستان پوسٹ: کالم

کُومہ ایک ذہنی مرض ہے، جسے آپ دماغی چُھٹی کا نام بھی دے سکتے ہیں. اس میں یہ ہوتا ہے کہ آپ زندہ تو ہیں لیکن دماغ سو رہا ہوتا ہے. بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ دماغ کام تو کررہا ہوتا ہے لیکن کچھ حس مفلوج ہوجاتے ہیں، جیسے کہ آنکھیں کھلی ہوتی ہے، دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں لیکن زبان کیلئے دماغ سُن ہوجاتا ہے کہ کچھ بول سکے، اور بعض اوقات سُن رہے ہوتے ہیں لیکن دیکھ نہیں پاتے ہیں اور کبھی کبھی اللہ میاں کی گائے بن جاتے ہیں کہ سُن، دیکھ، بول سکتے ہیں لیکن حرکت نہیں کرسکتے۔

تو جناب عرض ہے کہ آج کل ہمارے خاران میں ان نیم زندہ یعنی کُومہ میں مبتلا مریضوں کا اتحاد ہوچلا ہے، آپ سوچ رہے ہونگے کہ مریضوں کا اتحاد، ایسا بھی ہوا ہے بھلا؟

سادہ سا جواب ہے کہ بڑا ہی آسان نسخہ ہے، ایک مریض کی ضرورت ہوتی ہے جو سر پر زور سے وار کرے جیسے کہ ڈر کا وار، خوف کا وار، نمائش کا وار، مراعات کا وار، بڑھوتری کا وار، جیسے کہ یار محمد رند نے رند والا ہتھوڑا سیاپاد کے سر پر مارا اور منیر ملازیوں کے سر پر غرض سمالانی، میروانی، کبدانی، علم خیل، محمد حسنی جتنے زیادہ ہتھوڑے (اتحاد) لوگوں کے سروں پر پڑے ان میں فائدہ صرف ڈاکٹر یعنی ہتھوڑے مارنے والا ہی حاصل کرے (یار محمد، منیر جیسے اتحادی اور اس کے سٹاف جو کچھ منچلے نوجوان ہوتے ہیں.)، جو اس کیلئے قوم کو تقسیم در تقسیم کرکے کُومی اتحاد کیلئے پیش پیش رہتے ہیں. اس کھیل میں صرف انہیں ہی فائدہ ہوتا ہے. ڈاکٹر کو جس نے بھیجا (کالونائزر) وہ سب کا خرچہ اٹھاتا ہے اور ان منچلوں (بے حس، بے شعور، لالچی نوجوان) میں سے کچھ تو مراعات کے حصول کے لئے بکاؤ ہوتے ہیں اور کچھ بیچارے اسے اپنی پہچان قرار دیکر عوام کا جمِ غفیر اکھٹا کرتے ہیں اور پکڑ پکڑ کر ڈاکٹر کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

عوام بیچاری صرف اور صرف استعمال ہی ہوتی ہے. عوام جو نوآبادی ہے اور نوآبادیاتی نفسیات کا شکار ہے، اسے کچھ بیماریاں غلامی کی لگی ہوتی ہیں اور مختلف ڈاکٹر بھیج کر کچھ بیماریوں کو وقت کے ساتھ ساتھ کالونائزر یعنی پاکستانی اپڈیٹ کررہا ہوتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے جمالی نامی ایک ماہر نفسیات کو بھیجا گیا تھا لیکن شومی قسمت وہ روٹھ کر ہمیشہ کے لیئے خاموشی کی حالت میں ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر براستہ نوشکی واپس چلاگیا، ہوا یوں کہ وہ پوشیدہ طور پر نفسیاتی بیماریاں پھیلا رہا تھا کہ اس کے بنائے گئے نسخے لوگ زیادہ سے زیادہ استعمال کریں اور عوام نے استاد سمجھا لیکن وہ بھی خفیہ ڈاکٹر نکلا۔

اس کے بعد ڈاکٹر شفیق مینگل (ماہر ہڈّی جوڑ) کے کارندے بھیجے گئے جو عوام کو خود کی ہی ایمبولنس میں بٹھا کر ان کی مرضی کے بغیر مفت علاج کے لیئے لے جاتے اور مزے کی بات یہ ہے کہ بعد میں تمام مریض ایک ہی گُور سے دریافت کیئے گئے۔

اب باری آئی سرجن انور بادینی (ڈی پی او) کی، انور بادینی پیشے کے لحاظ سے بھیجے گئے ڈاکٹر ہی ہیں لیکن ان کو وردی پولیس کی پسند آتی ہے. ڈاکٹر انور نے ایم اے راولپنڈی سے کر رکھی ہے. ان صاحب کا کیا کہیئے، ایک بنے بنائے تیار اسکرپٹ کو لیکر شہر مریضان میں داخل ہوئے. کچھ رحیم اور ملا اشرف ان کے لیئے تیار کیئے گئے، ان کو چوری ڈکیتی، قتل و غنڈہ گردی کے لیئے کھلی چُوٹ دی گئی (ٹھیک ویسے ہی جیسے کہ قربانی کے بکرے کو کھلایا پلایا جاتا ہے.) تاکہ سرجن انور صاحب ان کی سرجری کرکے عوام کے سامنے مسیحا کا نام حاصل کرپائے.

مسیحا پر حملہ ہوا تو پانچویں دن کُوٹ پتلون میں ملبوس اپنے خاندانی ریوڑ، دیگر چمچوں اور فصلی بٹیروں سمیت سکرین پر نمودار ہوئے اور پھر کیا تھا، عوام ٹہری مریض، بیٹے کے ختنے سے لیکر شادی بیاہ، مرگ و سوگ ہر جگہ ان کی حاضری ایک مسیحا اور نجات دہندہ کے طور پر لازمی قرار پایا. جب یہ ڈاکٹر بھی پہچان لیئے گئے تو کُومی اتحاد اور ہتھوڑوں کی بارش ہوئی۔

دعا کرسکتی ہوں کہ اللہ فرشتوں کے ذریعے اس شہر کے لیئے عقل کا تحفہ بھیجے کہ کُومی اتحاد (اصل میں قبائلی اتحاد) نجات نہیں غلامی در غلامی ہے اور حقیقی اتحاد مل کر اپنے قومی مسائل پر توجہ دینا ہے.اپنے مسیحا اور نجات دہندہ کو پہچانے اور ان کی قدر کرے، جو آپ کے آنے والے کل کے لیئے اپنا آج قربان کرچکے ہیں۔
یہ کُومی اتحاد والے موسمی لوگ صرف آپ کو اپنے مفادات کے بھینٹ چڑھاکے استعمال کریں گے. اب دماغ سے کام لینا ہے یا دماغ کُومی اتحاد میں شامل کرنا ہے یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔