خلیجی ریاست کویت کی وزارت اوقاف و مذہبی امور کی جانب سے خواتین میں حجاب کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی مہم پر ملک کے سیاسی حلقوں میں ایک نیا تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق تنازع کا سبب ایک بل بورڈ بنا ہے جس پر ایک محجب دو شیزہ کی تصویر کے ساتھ ’حجابی ۔۔۔ بہ تحلو حیاتی‘ [حجاب میری زندگی کا زیور ہے] کے الفاظ تحریر ہیں۔
دوسری جانب کویت کے لبرل سیاسی حلقوں نے اس بل بورڈ پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ کویت کا دستور اس طرح کی مہمات کی اجازت نہیں دیتا۔
سیاسی طورپر اس بل بورڈ کی مخالفت کرنے والوں میں رکن پارلیمان صفاء الھاشم پیش پیش ہیں۔
انہوں نے متنازع بل بورڈ اور حجاب مہم کے حوالے سے ’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘ سے بات کرتے ہوئے اپنے خیالات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ حجاب خواتین کا ایک نجی معاملہ ہے۔ اسے سرکاری مہم کے طورپر پیش نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے قبل انہوں نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائیٹ ’ٹوئٹر‘ پر اپنی ایک پوسٹ میں بھی یہی بات کی تھی اور لکھا تھا کہ کویت کا دستور جبرا حجاب مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے وزیر اوقاف کو بھی کہا ہے کہ ان کی یہ مہم عجیب وغریب ہے۔ میں ذاتی طور پر حجاب کے خلاف نہیں۔ دستور میں بھی حجاب کو نجی معاملہ قرار دیا گیا ہے اور میں بھی اسی اصول پر قائم ہوں۔ بہت سے سرکردہ محجب خواتین میرے حلقہ احباب میں شامل ہیں۔
انہوں نے استفسار کیا کہ بل بورڈ پر حجاب کی مہم وزارت اوقاف کے تعاون سے شروع کی گئی مگر آخر کیا وجہ ہے کہ اشتہار کے آخر میں لکھا ہے کہ یہ فلاں کے تعاون سے جاری کیا گیا ہے۔اس اشتہار کے حوالے سے شوشل میڈیا پر بھی گرما گرم بحث جاری ہے۔ بعض حلقے اسے اسلام میں خواتین کی بنیادی ذمہ داری کے طورپر پیش کرت ہیں جب کہ بعض نے حجاب کے معاملے میں روایت پسندی ترک کرنے پر زور دیا ہے۔
کویت کی ایک سرکردہ سماجی کارکن ڈاکٹر غدیر اسیری کا کہنا ہے کہ ہم حجاب کے خلاف نہیں۔ مگر حکومت کی طرف سے قومی خزانے سے مخصوص شرعی لباس کی ترویج کے لیے مہم چلانا قابل قبول نہیں۔
رکن پارلیمان ولید الطبطبائی کا کہنا ہے کہ خاتون رکن الھاشم کی طرف سے حجاب مہم پرتنقید ان کے لیے حیرت کی باعث ہے۔