کشتی آزادی خون میں تیرتا ہوا
سنگت رضابھار
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
آزادی کے قافلے میں ساتھ چل کر جو سچے دل سے نہایت مُخلصی اور ایمانداری سے اپنا قومی فرض نبھاتے ہیں، یقین مانو آنے والے صدیوں میں رہتی دنیا تک یاد رکھے جائینگے، جو اچھے کام کرتے ہیں، وہ سنہرے لفظوں میں یاد رکھے جائینگے اور جو بُرائی اور منافقت کے ساتھ اپنے لیئے سوچتے ہیں، انکا نام لینے والا انسانیت کی بستی میں کوئی ایک بھی نہیں ہوگا، میں اکثر اپنی تحریروں میں ایمانداری اور مُخلصی کی بات کا جو اعادہ کرتا ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی کام کو منطقی انجام تک پُہنچانے کیلئے وفاداری اور ایمانداری ضروری جُز ہوتے ہیں. جس مقصد کیلئے ہم نے یہ جنگ شروع کی اگر یہاں دھوکہ منافقت اور جہالت ہو تو کچھ حاصل نہیں ہوگا. ہم جس کشتی میں سوار ہیں یہ سمندر، نہیں خون میں تیرتا ہوا اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے، یہ خون قیمتی خون ہے۔
اس کشتی کی روانی ہمارے عظیم شہداء کے لہو اور میدان میں سرپریکار مُخلص اور ایماندار سرمچاروں اور مُخلص قیادت کی وجہ سے ملی ہے۔ جو اس کشتی میں سوار ہیں، سفر کر رہے ہیں، وہ ذرا اپنی آنکھیں نیچے کرلیں، انہیں سرخ رنگ کا سمندر ضرور دِکھائی دیگا۔ یہ خون کا سمندر ہے، جس پہ ہم سفر کر رہے ہیں۔
یہاں کم ظرف اور مفاد پرست لوگوں کا منافقت نہیں چلے گا، ہزاروں بلوچ فرزندوں نے اپنی جانیں قربان کردیں، ‘ہزاروں نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا، کئی بچے یتیم ہوگئے، کئی بہنوں کے اکلوتے بھائی شہید ہوگئے۔ کئی ماؤں نے اپنے بیٹوں کے لاش خود دیکھیں ہیں۔ بہت سی عورتیں بیوہ ہوگئیں، کئیوں کو آج تک کھانے پینے کا سہولت دستیاب نہیں۔ بہت سے خاندان، ہجرت کرکے در بہ در کی زندگی گُذاررہے ہیں۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگ ایک وقت کی روٹی کیلئے ترس رہے ہیں۔ بہت سے قبائلی بزرگ اور یتیم بچے اپنے آبائی علاقوں سے ہجرت کرگئے ہیں، بہت سے لوگ بے سہارہ بن گئے۔ ہمیں اس کاروان کو منزل تک پہنچانے کیلیئے اپنی چھوٹی اور خیالی دنیا سے نکل کر اپنا کام پوری ایمانداری، جوش اور جذبے کے ساتھ پورا کرنا ہے۔ سرد ہواؤں میں زندگی گُذارنا آسان ہے۔ کبھی جلتے ہوئے پہاڑوں پہ قدم رکھنا، اگر کبھی فرصت ملے، تو میرے وطن کے گرم سحراؤں میں بھی سفر کرنا، اگر کبھی وقت ملا تو بولان کی برفیلی پہاڑوں زندگی بسر کریں۔
کتنا آسان ہے یا مشکل ہے، دور سے دوربین کی نظر سے فیصلے کرنا اور اپنی بات منوانا چھوڑ دیں، حقائق کو سامنے رکھ کر پھر جج بن جائیں، ایسا عدالت نا بنائیں جہاں وکیل اور شواہد کی گنجائش نہ ہو، لوگوں کو ھمیشہ اپنے نظریے سے غلط ماننا خود ایک غلط اور غیر سنجیدہ عمل ہے. ایک باشعور انسان کو چاہیئے کہ سب حقائق کو علمی روشنی میں ثبوت بنا ججمنٹ پاس کریں۔ جس کو جو کرنا ہے، جو بھی فیصلے لینے ہیں، وہ برائے مہربانی کرکے ذمینی حقائق کو نظر انداز نہ کریں، اگر دیکھا جائے تو بلوچستان آج مکمل فوجی محاصرے میں ہے، ایسا کوئی جگہ نہیں جہاں فوجی چھاونیاں قائم نہیں. تو ایسے حالات میں بلوچ قوم آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرسکتا۔ ہمیں چاہیئے کہ مضبوط عوامی روابط کو مستحکم بنائیں۔
عوامی وابستگی کو مضبوط کریں،اپنے کمیونیکیش نظام کو بہتر بنائیں تاکہ جو بھی ہم سے رابطے میں ہیں، انکی حفاظت کا خیال رکھا
جائے.آجکل کمیونیکیش{ Communication system} نظام خفیہ ایجنسیوں ( secret Intelligences)کی نگرانی میں ہیں
روابط کی انتظامات کو بہتر بنانے کیلئے سائنسی اور جدید کمیونیکیش نظام کا سہارہ لینا چاہیئے۔
ویسے تو بلوچستان بھر میں انٹرنیٹ کی سہولیات معطل ہیں.اگر جہاں بھی انٹرنیٹ ہے، تو وہاں دوستوں کو انٹرنیٹ کا سہارہ لیکر رابطے جاری رکھنے چاہیئے۔ اگر جہاں انٹرنیٹ دستیاب نہیں، وہاں دوستوں کو چاہیئے۔ مکمل راز داری اور مہارت سے اپنے عوامی رابطے قائم کریں۔ یہ جنگ اس وقت منزل تک پُہنچ سکتا ہے، جب انصاف ہوگا، جب ہرکسی کی رائے کا احترام ہوگا۔ ایک دوسرے کے ساتھ ہم سنگتی اور نیک نیتی ہوگا۔ جتنی دیر کریں گے، اُتنا ہی زیادہ نقصان اُٹھانا پڑیگا۔ اس قومی تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے سب کو ملکر کام کرنا ہوگا، مشترکہ طور پر کام کیا جائے اور ایک دوسرے کو اعتماد میں لیا جائے۔
کسی بھی قومی فیصلے کیلئے سب کی رائے مناسب انداز میں لیا جائے. ہم سب کو دل اور جان سے اپنا کام ایمانداری سے کرنا چاہیئے تاکہ یہ کشتی کسی بڑے طوفان کا شکار نہ بنے۔.