پاکستان میں انسانی حقوق کی ایک غیر جانب دار تنظیم ‘ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان’ (ایچ آر سی پی) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں انسانی حقوق کی صورتِ حال اب بھی باعث تشویش ہے۔
سال 2017 سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں ایچ آر سی پی نے کہا ہے کہ ملک میں جبری گمشدگیاں، آزادیٔ اظہار پر قدغنیں اور مذہبی اقلیتوں کو درپیش خطرات اب بھی انسانی حقوق کے بڑے مسائل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2017ء میں دہشت گردی کے سبب ہونے والی ہلاکتوں میں تو کمی آئی ہے لیکن مذہبی اقلیتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں جیسے ’آسان اہداف‘ پر تشدد میں اضافہ ہوا۔
ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ 2017ء میں پاکستان میں توہینِ مذہب سے متعلق تشدد اور مشتعل ہجوم کے حملوں میں اضافہ ہوا۔
سابق سینیٹر اور سیاست دان فرحت اللہ بابر نے ‘ایچ آر سی پی’ کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں مذہبی اقلتیوں سے متعلق صورتِ حال اچھی نہیں ہے۔
“پاکستان میں جو غیر مسلم اقلیتیں ہیں، اُن کے نزدیک گھیرا مزید تنگ ہو گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے 2014ء کے ایک فیصلے میں ‘کمیشن فار مائینارٹی ویلفیئر’ بنانے کا کہا تھا لیکن وہ اب تک نہیں بنا۔ یہ محض قانون سازی سے بھی حل نہیں ہو گا۔ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔ معاشرے کو آگاہ کرنا پڑے گا اور آواز اٹھانی پڑے گی۔”
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ملک میں “مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی رویہ موجود ہے جو ختم ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ریاست کے تمام اداروں اور لوگوں کو آواز اٹھانی چاہیے۔”
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور ‘ایچ آر سی پی’ کے ترجمان آئی اے رحمٰن کہتے ہیں کہ مذہبی اقلیتوں کو غیر ریاستی عناصر کی طرف سے پابندیوں کا سامنا ہے۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدگیوں کو 2017ء میں 868 کیسز موصول ہوئے جن میں سے کمیشن نے 555 کیسز نمٹائے۔
ایچ آر سی پی کی سال 2017ء کی 297 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور کمیشن کی سابق سربراہ عاصمہ جہانگیر کی کاوشوں کے نام کی گئی ہے۔
عاصمہ جہانگیر فروری 2018 میں 66 برس کی عمر میں انتقال کرگئی تھیں۔
رپورٹ میں اٹھائے گئے سوالات کے بارے میں انسانی حقوق کی وفاقی وزارت اور وزیر سمیت حکام سے رابطے کی متعدد کوششیں کی گئیں لیکن تاحال اس پر حکومت کا کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
ایچ آر سی پی کے ترجمان آئی اے رحمٰن نے کہا ہے کہ کمیشن کی سالانہ رپورٹ ہر سال پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور متعلقہ اداروں کو بھیجی جاتی ہے اور جن مسائل کی نشاندہی کی جاتی ہے اُن سے متعلق تجاویز بھی رپورٹ کا حصہ ہوتی ہیں۔