اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسانی حقوق میں بلوچ نمائندے نواب مہران مری نے کہا ہے کہ پچھلے دس دنوں سے کوہستان مری جس میں کوہ بامبور، تراتانی و دیگر علاقوں کے علاوہ بگٹی علاقوں کو پاکستانی فوج نے مکمل گھیرے میں لیکر خونی آپریشن شروع کر رکھی ہے راستوں کو بند کرکے آمدورفت پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے پانی کے چشموں اور دیگر ذرائع پر فوج نے قبضہ کرکے وہاں پر مورچے بنائے ہیں اور لوگوں کی پانی تک رسائی ناممکن بنادی گئی ہے.
مہران مری نے کہا کہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ پانی کے تالابوں اور چشموں میں نقصان دہ کیمیکل شامل کیا جارہا ہے تاکہ پانی پینے کے قابل نہ رہے اور لوگوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جاسکے اور قابض فوج اور ان کے معاون کاروں کے لئے ان علاقوں کے معدنی وسائل کو لوٹنے میں آسانی رہے۔ یاد رہے کہ ان علاقوں میں پینے کا پانی پہلے سے ہی ناپید ہے، انسان، مال مویشی اور دیگر جانور ایک ہی جوہڑ سے پانی پیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ علاقے میں وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن بغیر وقفہ کے زور و شور سے جاری ہے،اور اس فوجی جارحیت میں عام آبادیوں پر چھوٹے بڑے ہتھیاروں کے علاوہ گن شپ ہیلی کاپٹروں سے بمباری کی جارہی ہے جس سے کئی نہتے لوگوں کے شہید اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ علاقائی ذرائع کے مطابق گھروں کے قریب بذریعہ ہیلی کاپٹر فوجی اتارے جاتے ہیں جو لوگوں کے جھونپڑی نما گھروں کو آگ لگادیتے ہیں اور لوگوں کا واحد ذریعہ معاش مال مویشیوں کو بڑی تعداد میں ٹرکوں میں لاد کر علاقے میں موجود مختلف فوجی کیمپوں میں منتقل کیا جاتا ہے اور باقی ماندہ پر اندھادھند فائرنگ کرکے بے رحمی سے ہلاک کردیتے ہیں اور ساتھ ہی عورتوں کو فوجی ہیلی کاپٹروں میں سوار کرکے نامعلوم مقام کی طرف لےجانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیرہ بگٹی، سبی اور دوسرے قریبی دیہاتوں اور شہروں کے آنے جانے والے راستوں کو قابض فوج نے تمام آمدورفت کے لئے بند کردیا جس سے لوگوں کو زخمیوں اور دیگر مریضوں کو ہسپتال لے جانے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔
مہران مری نے کہا کہ پاکستانی فوج نے بیرون ملک رہنے والےاپنے کرائے کے حواریوں اور زرخرید نام نہاد رہنماوں کا جمعہ بازار لگایا ہوا ہے جو آئے روز ایک نیا شوشہ چھوڑ کر بلوچ تحریک آزادی سے وابسطہ آزادی پسند رہنماوں، کارکنوں اور سیاسی تنظیموں کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں تاکہ بلوچ عوام باالخصوص کارکنوں و جہد کاروں میں مایوسی، بدظنی پیدا کرکے کسی بھی طرح اس جدو جہد آذادی کو کاونٹر کیا جاسکے. لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بلوچ قوم شعوری طور پر اپنے آذادی کے لئے ایک منظم تحریک چلارہے ہیں اور یہ تحریک شہدا کے قربانیوں کے باعث اب اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ وہ آئی ایس آئی کے ہاتھوں کھیلنے والے ان پرانے چہروں والے نئے کرداروں کی اچھی طرح پہچان رکھتے ہیں اور ماضی کی طرح اب بھی انہیں مسترد کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بیرون ممالک کہ علاوہ ریاستی دہشت گرد فوج نےاپنے پیدا کردہ مقامی ڈیتھ سکواڈز اور دیگر زرخرید معاون کاروں اور کرائے پر دستیاب رہنماوں کی مدد سے پورے بلوچستان مکران سے لے کر کوہستان مری، ڈیرہ بگٹی تا خضدار کو مقتل گاہ میں تبدیل کردیا جہاں انسانی حقوق تو دور کی بات لوگوں کو جینے کی حقوق سے بھی محروم کیا ہوا ہے. نہتے لوگوں کی قتل و غارت، جبری گمشدگی، میڈیا بلیک آوٹ، پنجابی فوج کے ہاتھوں بلوچ قوم کی نسل کشی اور ریاستی دہشتگردی پر علاقائی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کی مجرمانہ خاموشی انتہائی قابل مذمت ہے۔