افغانستان نےالزام عائد کیا ہے کہ پاکستانی افواج نے مشرقی افغانستان میں داخل ہو کر افغان فورسز پر حملہ کیا، جس کے بعد دونوں ممالک کی افواج کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے افغان صوبے خوست کے اعلیٰ پولیس اہلکار کرنل عبدالہنان کے حوالے سے بتایا ہے کہ اتوار کی علی الصبح پاکستانی فورسز نے سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے افغان فورسز پر حملہ کیا ہے۔
ہنان نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی فورسز خوست میں داخل ہوئیں اور انہوں نے افغان فوج کے خلاف کارروائی کی، جس کے نتیجے میں جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جھڑپیں جاری ہیں۔ تاہم انہوں نے اس تازہ لڑائی کی وجہ یا ہلاکتوں کے بارے میں کوئی تفصیل جاری نہیں کی۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین دو ہزار کلو میٹر سے زائد طویل سرحد دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین تناؤ کا سبب ہے۔ ڈیورںڈ لائن نامی اس سرحد کو انیسویں صدی میں برطانوی راج کے دور میں تقسیم کیا گیا تھا۔ تاہم کابل حکومت اسے بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم نہیں کرتی ہے۔
افغان حکومت ڈیورنڈ لائن پر پاکستانی فوج کی طرف سے قائم کردہ نئی عسکری چوکیوں پر بھی تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے سرحدی علاقوں میں فعال شدت پسندوں کے خلاف مناسب کارروائی نہیں کرتے ہیں۔
کابل اور امریکا کا کہنا ہے کہ افغانستان سے متصل بالخصوص پاکستانی قبائلی علاقہ جات میں جنگجو محفوظ ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں جبکہ پاکستانی فوج کے کچھ عناصر ان جنگجوؤں کو معاونت فراہم کرتے ہیں۔ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہی جنگجو افغانستان میں سرحد پار کارروائی کرتے ہوئے افغان حکومت اور غیر ملکی اہداف کو نشانہ بناتے ہیں۔
تاہم پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔ اسلام آباد حکومت کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو دراصل افغانستان میں محفوظ ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں، جو وقتا فوقتا پاکستان میں داخل ہو کر دہشت گردانہ کارروائیاں سر انجام دیتے رہتے ہیں۔
حال ہی میں پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے افغانستان کا دورہ کیا تھا، جس دوران انہوں نے افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات میں علاقائی سکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے تعاون بڑھانے پر زور بھی دیا تھا۔