وہ الفاظ جو شہید ساکا کیلئے لکھ نا سکا – فرحان بلوچ

355

وہ الفاظ جو شہید ساکا کیلئے لکھ نا سکا

فرحان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

آج میں ایک ایسی ہستی اور ایک ایسے انسان کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں، جس کی ہر خوشی، صرف ایک امید پر قربان ہوگئی۔ زندگی میں اس نے اپنی فیملی اور اپنی ذاتی خواہشوں کو آگ میں جھونک کر، جدوجہد میں شامل ہو کر ایک نئے طور و طریقے سے کمانڈنگ کرتے رہے۔ دل جو خون کے بغیر دھڑکتا نہیں، اسے خون کی ضرورت ہے، وہ خون جو ہر بلوچ نوجوان کے رگوں میں دوڑتی ہے، آج اسی خون کی ضرورت مادر وطن کو ہے اور وہ اسی خون کیلئے پکار رہی ہے۔ یہ زمین جو کئی نوجوانوں کی خون سے لال ہے۔

انسان صرف آزادی کی ہی امید میں نہیں بلکہ ایک آنے والے کل کیلئے، ایک نئے دور اور نئے فکر اور حکمت عملیوں کی امید کیلئے جنگ کرنا چاہتا ہے۔ انسان کھبی درد نہیں سہہ سکتا، اگر کوئی درد آئے، اسے فوراً دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کوئی حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے، انسان جہاں پیدا ہوتا ہے، وہیں سے اس پر، اسی ماحول کی ہر بری اور اچھی اثر پڑتی ہے، وہاں کے لوگوں کی زندگی کے بارے میں انکے مسئلوں کی بارے میں یا انکی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر کوئی برا اثر آنے کو ملے تو وہ فوراً حل کرنے کی کوشش کرتا ہے، انسان جہاں پیدا ہوتا ہے، وہاں کی مٹی سے اسے بے حد محبت ہوجاتا ہے، وہ اسی مٹی کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوتا ہے، جب اس زمین پر ظلمتیں طاری ہوں تو پھر، اس پر ایک ایسی بےچینی چھا جاتی ہے، جیسے کوئی پرندہ اپنا گھونسلہ کھو دے۔

ایک ایسی ہی بے چینی شہید ساکا جان کے دل میں بس چکا تھا اور وہ اپنے ماحول سے کچھ ایسا سبق سیکھ چکا تھا، اسکی جستجو کرنے سے وہ انقلاب کے ایک روشن راہ پہ رواں ہوا اور ایک سائنسی تبدیلی لانے کی خواہش رکھتا تھا۔ شہید ساکا جان ایک انتہائی قابل انسان اور ایک چمکتی ہوئی سوچ و فکر کا مالک انسان تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے مادر وطن کی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کا حل نکالنے کی کوشش میں لگارہتا تھا، وہ زنجیریں جنہوں نے بلوچستان کو اپنے لپیٹ میں لیکر لہو لہان کردیا ہے، ساکا جان ان کو توڑنے میں مصروف تھا، وہ دوسروں کی قربانیوں پر فخر کرتا تھا، وہ کہتا تھا کی میں مانتا ہوں کہ میں غلام ہوں۔

شہید ساکا جان سے جب میری پہلی ملاقات ہوئی، تو مجھے اسکی باتوں میں ایک نیا جذبہ اور ایک رونق راہ محسوس ہونے لگا، انکی باتیں ایک مشعل راہ کے مانند تھے، وہ ایک گوریلا جنگجو تھا، وہ ایک انسانیت پسند تھا اور وہ دوسروں پر ظلم کی داستان برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ وہ اس جبر کے خلاف ہوگیا تھا جس نے پورے بلوچستان کو زنجیروں کی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔

ساکا جان اکیسوی صدی کا ایک عملی گوریلا کمانڈر تھا، وہ نئے حکمت عملیوں سے کام کرتے تھے، وہ حقیقت فاش کرنے کیلئے جھوٹ کے منہ پر تھپڑ مار رہا تھا، ساکا جان مشکے گورجک کا رہائشی تھا۔ کاش میرے پاس انکے بارے میں اور معلومات ہوتا، وہ ایک لڑائی کے دوران دشمن کی میں آنکھیں ڈال کر آخری دم تک لڑا، اور اپنے ایک اور ساتھی زدگ جان سمیت جامِ شہادت نوش کرگیا۔ اس وقت وہ گچک ریجن کا کمانڈر تھا، بلوچستان کے دوسری جنگجو بہادروں میں سے وہ ایک تھا، اسے یقین تھا کی ایک دن ضرور آزادی ملے گی، وہ زندہ رہے یا نا رہے۔

وہ کہتا تھا میں جانتا ہوں ہماری جدوجہد میں کچھ کمزوریاں ہیں لیکن ہمیں ہار نہیں ماننی چاہیئے، جیت ہماری ہے جیت کیلئے ہار نہ ماننے کی ٹھان لینا۔ دشمن شکست کھا چکی ہے اور جیت ہماری ہے۔

آپ نے اپنی جان ان کیلئے قربان کردیا جنہیں آپ اپنی قوم سمجھتے ہو، تمہارے سرزمین میں ایسے لوگ رہتے ہیں، جنہوں نے آپکی تصویر تک نہیں دیکھی ہے، مگر آج آپکی قربانیوں کو دیکھ کر آپ پر فخر کرتے ہیں۔ میں آپکو اپنے علم کے مطابق ہیرو اور اپنے جذبات کے حوالے سے ہر خواب سے زیادہ جانتا ہوں، مجھے ہمیشہ ان لوگوں کو جاننے کا خواہش رہا ہے، جو اپنے ذات سے زیادہ دوسروں کو پیار کرتے ہیں، جو آزادی کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں۔ میں ہمیشہ ان لوگوں کی قربانیوں کو سلام کرتا ہوں، جو سورج کے تیز کرنوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ننگے پاؤں شان سے چلتے ہیں اور روشنی و زندگی کی ترقی کیلئے دشمنوں کو حرف انکار سے نوازا ہے، تمہاری روح ہم سے مظلومیت دور کرنے کا مطالبہ کرہاہے، تم نے ہماری جدوجہد میں شامل ہوکر، ہمیں بین الاقومی بھائی چارے کا درس دیا ہے، تم نے اپنا لہو بہا کر تاریخ لکھا ہے، تم مرے نہیں، تم زندہ ہو ہمیشہ زندہ رہوگے۔