نصیر احمدایک محنتی سیاسی کارکن – سہراب بلوچ

328

نصیر احمدایک محنتی سیاسی کارکن

تحریر: سہراب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ: کالم

نوجوان قوم کا وہ اعلیٰ طبقہ ہے، جس سے اقوام کی امیدیں اورامنگیں وابستہ ہوتی ہیں، نوجوان قوموں کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نوجوان صبحِ نو کی امید اور تاریخ کے چراغ بن جاتے ہیں، مظلوم قوم کے نوجوانوں ہمیشہ اپنی تاریخ میں نئے نام روشن کر تے ہیں، جب محکوم اقوام کے فرزند خود کو تاریخ میں تلا ش کرنے کی تگ ودو کرتا ہے تو ریاست کی جبر ان کے سامنے آجاتا ہے۔ قید و بند کی سعوبتیں بر داشت کر نی پڑتی ہے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ باشعور نوجوان محکوم قوم میں نئی امیدیں پید اکرتے ہیں، تاریخ میں نئے نام رقم کرتے ہیں، اسی طرح جب طاقتور مظلوم قوم پر قابض ہوتا ہے، تو اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کیلئے قوم کے رسم و رواج زبان و تہذیب کو تاراج کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح نوجوانوں کو تعلیم جیسے زیور سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہے، علم و زانت کی جگہ نشے جیسی عادت میں مبتلا کروانے کی تگ و دو کرتے ہیں اور ہر وقت قبضہ گیر کا یہی کوشش ہوتا ہے کہ مظلوم قوم کے نوجوان طبقے کو جہالت کے سمت مائل کرے کیونکہ نوجوان قوم کیلئے ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے۔

اسی طرح ہم بلوچ جدوجہد پر نظر ڈالیں تو روزِ اول سے پاکستانی فوج کا وطیرہ رہا ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو اٹھا کر غائب کریں لیکن ان کو کسی عدالت میں پیش نہیں کی جاتی ہے کیو نکہ جہاں فو ج کا اندھا قانون ہو، وہ قانون یہی ہو تا ہے کہ جو راستہ آئے اسے ختم کیا جائے، تاکہ انکے ظلم کے خلاف کوئی آواز نہیں اُٹھا سکے۔

بی ایس او آزاد بلوچ طلبا کا پرامن سیاسی پلیٹ فارم ہے، جو نوجو انوں کو سیاسی و سماجی تعلیم دیتا ہے، پاکستان نے بی ایس او آزاد کو کالعدم قرار دے کر پھربلوچ طلبا کو چن چن کر غائب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، تاکہ بلوچ نوجوانوں کو خوف کا شکار کرکے ان کو قومی احساس سے دور رکھیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ باشعور لوگوں نے کبھی بھی سر جھکا کر جینے کو ترجیح نہیں دی ہے، سرجھکانے کے بجائے ہمیشہ حق اور سچ کے ساتھ ہمقدم ہوئے ہیں اور کامیابی ہمیشہ سچ کے ساتھ ٹہرا ہے۔

آج میں ایک باشعور مغوی سیاسی کارکن نصیر احمد کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں، نصیر احمد بلوچستان کے ڈسٹرکٹ آوارن کے پسماندہ تحصیل جھاؤ کے ایک چھوٹی گاؤں کوہڑو میں صوالی کے گھر 3 فروری 1991 کو پیدا ہوا، ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی، مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے کوئٹہ کا رخ اختیار کیا، فرسٹ ائیر سے لیکر سیکنڈائیر تک سائنس کالج کوئٹہ میں زیر تعلیم رہے، ان کا تعلق ایک پسماندہ علاقے جھاؤ سے ہے، غربت اور تنگ دستی کے باوجودتعلیم حاصل کرنے کیلئے جھاؤ سے نکل کر کو ئٹہ کراچی اور اوتھل تک گئے، علم کی پیاس بجھانے کیلئے در در کے ٹھوکریں کھاتے رہے۔ اسی دوران بلوچ طلبہ تنظیم بی ایس او آزاد میں شمولیت اختیار کی، ایک سرگرم اور محنتی کارکن کی حیثیت سے وہ ہمیشہ اپنے تنظیمی کاموں میں سرگرمِ عمل رہا، ایف ایس سی پاس کر نے کے بعد وہ بولا ن میڈیکل کالج میں انٹری ٹیسٹ کی تیاری بھی کی، بولان میڈیکل کالج میں بدقسمتی سے وقت و حالات کے ساتھ ساتھ غربت اور تنگ دستی کی وجہ سے مزیدتعلیم کوئٹہ میں جاری نہیں رکھ سکے، لہٰذا واپس اپنے آبائی علاقے آئے، چند مہینوں کے قیام پزیری کے بعد پھر نزدیک اوتھل یونیورسٹی میں انگلش ادب میں داخلہ لے لیا۔

وہ احساس غلامی کاجذبہ رکھتا تھا، اس احساس کے ساتھ اس جستجو میں رہتا تھا کہ کیوں ہم اس طر ح کی بدحالی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں؟ کیوں بلوچ نوجوانوں اس کیخلاف حق بہ آواز نہ رہیں؟ اسی طرح جب جہاں بی ایس او کے تربیتی پروگر ام رہے، تو وہ پیش پیش رہا۔ وہ اوتھل میں بی ایس او کے صدر مقرر ہوئے، جب وہاں تعلیم حاصل کررہا تھا تو اپنے آخری سمسٹر کے دوران ریاست کے خفیہ اداروں کی جانب سے دھمکی موصول ہوئی، وہ ذہنی اذیت سے بچنے کیلئے اوتھل یونیورسٹی کو بھی خیر باد کرنے پر مجبور ہوئے۔ اسی بنا پر انہوں نے اُوتھل یونیورسٹی کو خیر باد کر دیا، تاکہ بی ایس او آزاد کے ذریعے بلوچ نو جوانو ں میں احساس پید ا کریں، اسی طرح میں کہتا ہو ں نصیر احمد نے اپنی ذاتی خواہشات کو قومی مقصد کیلئے قربان کردیا،

اسکے بعد آپ وہی قومی احساس کا پر چار کر تے رہے، بی ایس او آزاد کو جھاؤ میں منظم کرنے میں پیش پیش رہے، جھاؤ زون کے صدرمنتخب ہوئے، جھاؤ کے گاؤں گاؤں میں کارنرمیٹنگ کرتے ہوئے، ہر ایک کو قومی آزادی کے بارے میں آگاہی دیتے رہے، 2015 میں بی ایس او آزاد کے سنٹرل کمیٹی کے ممبر چنے گئے، اپنے تنظیمی کاموں کو بخوبی زمہ داری سے نبھاتے رہے 2015 کو بی ایس او آزاد کے بیسویں کونسل سیشن میں دوبارہ سنٹرل کمیٹی کے ممبر منتخب ہوئے، اسی طرح بلوچستان بھر میں تنظیم کاری میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے، آپ نوجوانوں میں سیاسی شعور اُجاگر کرتے رہے، موصوف کی دن رات جدوجہد، پاکستان کو گوارا نہیں ہوا، تو پاکستانی فوج نے نصیر احمد کے والد محترم کوگرفتار کرکے لاپتہ کردیا، یہ پیغام دیا کہ نصیر احمد اپنے تنظیمی سرگرمیوں سے ہٹ جائیں، تبھی انکے والد کو رہا کیا جائے گا لیکن موصوف کے پیروں میں کوئی لرزش تک نہ آئی کیو نکہ انہیں یہ احساس تھا کہ اس راہ میں ہرچیز کو قربان کرنا پڑتا ہے۔

نصیر احمد بہت ہی محنتی سیاسی کارکن تھے، ہر وقت تنظیمی سرگرمیوں میں رہتے تھے، میں ایک واقعے کا ذکر کرتا ہوں، ایک دفعہ گرمیوں کا موسم تھا، جھاؤ کی گرمی کے متعلق کوئی جانکاری رکھتا ہوں تو بخوبی جانتا ہوگا کہ یہاں بہت گرمی رہتی ہے، میں اپنی گھر میں آرام کررہا تھا، نصیر جان ہنستے ہوئے میرے گھر آئے، سلام دعا کے بعد کہنے لگا “سُہراب جان دوپہر کی نیند ہمارے جیسے محکوم نوجوانوں کیلئے نہیں ہے اورہنستے ہوئے بولے آج ایک چانس مل گیا ہے”، میں نے پوچھا کیا؟ بی ایس او آزاد کے کتا ب آزاد جو جون مہینے کے تھے آچکے ہیں، شاید 200 کتاب تھے، جو آپ کے پاس ہیں، کتابوں کو اُٹھاؤ نرمگی میں ایک شادی کا پروگرام ہے، وہاں کتابوں کو تقسیم کرتے ہیں۔ کارنرمیٹنگ کر کے آجاتے ہیں، ایک تیر سے دو شکار۔” میں نے کہا ٹھیک ہے۔ ہم دوپہر کی گرمی میں پیدل چل کر وہاں دو گھنٹے بعد پہنچنے کے بعد کتابوں کو تقسیم کیا اور ساتھ میں ایک کانرمیٹنگ بھی کرلیا، اسی دن مجھے احساس ہوا کہ نصیر احمد جیسے محنتی ورکر قوم کے سچے عاشق ہیں۔

میرے جیسے سیاسی کارکنوں کے لیئے وہ ایک سیاسی استاد ہے، میں اُسے اپنا عظیم سیاسی استاد مانتا ہوں، نصیر احمد کراچی میں ایک کرایے کے فلیٹ میں اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر تھے، وہاں انکے ساتھ بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکریٹری جنرل ثناء اللہ بلوچ، حسام بلوچ اور رفیق بلوچ بھی موجود تھے کہ آئی ایس آئی اور رینجرزکے اہلکاروں نے 15 نومبر 2017کی رات 9بجے انکے گھر چھاپہ مار کر نصیر احمد اور انکے دوستوں کوایک ساتھ گرفتار کرنے کے بعد لاپتہ کر دیا جو ہنوز لاپتہ ہیں۔