منشیات فروشی کا گرم بازار اور انوربادینی کا کردار – شبانہ کُبدانی

350

منشیات فروشی کا گرم بازار اور انوربادینی کا کردار

تحریر: شبانہ کُبدانی

دی بلوچستان پوسٹ: کالم

دنیا میں جہاں منشیات فروشی ایک کامیاب کاروبار ہے وہیں اس زہر قاتل نے انسانیت کا قتل انسان ہی کے ہاتھوں کروایا ہے۔ یہ انسان ہی ہے جس نے قدرت کی عطا کردہ جڑی بوٹیوں، پھل، پودوں کا غلط استعمال کرکے اسے خود انسانی بقاء کیلئے خطرہ بنا دیا ہے۔

واضح رہے کہ جنگوں نے جہاں انسانی قتل کو انفراد سے اجتماع کی حیثیت فراہم کی، وہیں جنگوں میں انسانی قوانین کی پامالی انسان ہی کے ہاتھوں نسل کشی کے بطور برآمد ہوئے ہیں، جن میں مقبوضہ اقوام میں منشیات کی لت عام کی گئی ہے۔ اسی طرح جہاں توسیع پسندی نے ایک قوم کی سرحدیں بڑھائی ہیں، وہیں کسی قوم کی نسل کشی کی بھی ذمہ دار ہے۔

سامراجی قوتوں کی ہمیشہ سے کوشش یہی رہی ہے کہ مظلوم اقوام کو اقتصادی، سماجی اور تعلیمی حوالے سے نیست کرکے ان کے خلاف آواز اُٹھانے والے مظلوم قوم کے نوجوانوں کو خوف، لالچ، مراعات یا پھر منشیات میں مبتلا کرکے اپاہج و ناکارہ بنایا جائے کیونکہ نوجوان ہی کسی قوم یا ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں اور جب کسی قوم کی کمر ہی توڑ دی جائے گی، تو وہ ارتقاء کے قابل نہیں رہے گا اور جلد ہی صفحہ ہستی سے مٹ کے ختم ہو جائیگی۔

مقبوضہ بلوچستان میں بھی ریاست پاکستان اپنے سامراجی ہتھکنڈوں(خوف، لالچ، منشیات)پہ عمل پیرا ہے۔ پورے بلوچستان میں منشیات کا جال بچھایا گیا ہے۔ جہاں ہیروین ، کرسٹل، شیشہ، تریاق، چرس آسانی سے حاصل ہوتی ہے۔ یوں تو عالمی منڈی میں ان کی قیمتیں آسمان کو چھوتی ہیں لیکن مقبوضہ بلوچستان میں پچاس پچاس روپے کے پڑیوں میں پیک ایک دس سالہ بچہ بھی آسانی سے حاصل کرسکتا ہے۔

امام بھیل جیسے بدنام زمانہ منشیات فروشوں کا نیشنل پارٹی (جو کہ بلوچستاں میں اپوزیشن اور حکومت کی سیٹوں پر براجمان ہے)کے کرتا دھرتا کے طور پر سامنے آنا خود ایک لمحہ فکریہ ہے، چونکہ ریاست نے منشیات کے ساتھ ساتھ ڈر، خوف اور لالچ کا بازار بھی گرم رکھا ہوا ہے تو نہ تو کوئی بول سکتا ہے نہ آواز اُٹھانے کی جرأت کر سکتا ہے۔ کسی کو لالچ و مراعات دے کر خاموش کیا جاتا ہے تو کہیں خوف دامن گیر ہے۔

لوگوں میں سوچنے سمجھنے کی حس کو ایک سسٹمیٹک طریقے سے ختم کردیا گیا ہے۔ جہاں لوگ آواز اُٹھانے کو خودکشی سے تعبیر کرتے ہیں۔

خاران میں بھی گذشتہ کئی سالوں سے اس زہر نے کئی نوجوانوں کو مرگ کے دہلیز پہ لاکھڑا کیا ہے اور کئی گھر اُجاڑ دیئے ہیں اور اس کے ذمہ دار، کھلم کھلا موت کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ جہاں انتظامیہ خاموش تماشائی ہی نہیں بلکہ شریک جرم ہے، چند پیسوں کی خاطر خود ہی اپنا جسم نوچ رہے ہیں اور بحثیت قوم ریاستی چالوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا شریک واردات ہیں۔

انور بادینی کا نام کون نہیں جانتا، خاران کا نجات دہندہ ہی بھتہ لے کر اس نسل کشی کو دوام دے رہا ہے اور بدلے میں ریاست کا منظور نظر ہے اور ساتھ ہی ہر مہینے بھتے کے پیسوں سے جیبیں بھرتا ہے۔

بلوچ مُسلح تنظیموں نے خاص کر بی۔ایل۔ایف اور بی۔ایل۔اے نے ریاستی چالوں کو بھانپتے ہوئے کئی بار ان ملوث افراد کو تنبیہہ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف حملے بھی کئے ہیں لیکن چونکہ ریاستی ایماء پہ پلنے والے یہ جانور کچھ عرصے خاموشی کے بعد اپنا کاروبار شروع کر دیتے ہیں۔ ان ملوث افراد میں ناصر اور اسکا چھوٹا بھائی حاجی اپنے گھر بابو محلہ میں ٹھکانہ بنا کہ پورے شہر میں ہوم ڈیلیوری کرتے ہیں۔

جبکہ موسٰی خان جو کہ ایک چور ہے، اپنے گھر اور دکان میں چرس، ہیروئن بیچتا ہے اور ظہور نظامی نے گھر کے پاس ٹھکانہ بنایا ہوا ہے جہاں یہ دن دھاڑے چرس بیچتا ہے۔ ولی جس کا تعلق دالبندین سے ہے اور خاران میں رہائش پذیر ہے اپنے گھر سے پنجگور، خاران اور دالبندین کا سپلائیر ہے۔ خاران گدان ہوٹل کا مالک جہاں ہوٹل چلاتے ہیں، وہیں زہر بیچتے ہیں اور نوجوانوں کا مجمع لگا ہوتا ہے۔

انکے علاوہ شیخ مُحلہ ، ہندو محلہ ، کُلان، جوژان، واپڈا مُحلہ کے منشیات فروشوں کے نام بھی جلد افشاں ہونگے جن سے پولیس بھتہ لے رہی ہے۔ پوری معلومات حاصل کرلی جائے گی اور انکے نام اور ٹھکانے جلد عوام کے سامنے لائے جائینگے ان سب کو ڈی پی او خاران انور بادینی کی سرپرستی حاصل ہے اور انور بادینی نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شہر میں موٹر سائیکل چوری کی وارداتیں بھی شروع کروائی ہے۔ بااعتماد ذرائع سے بات پتہ چلی ہے کہ انور بادینی سرمچاروں کے نام پہ لوگوں کے موٹرسائیکل چوری کروا کے ایک بار پھرڈاکو رحیم اور مُلا اشرف پیدا کرکے خاران کے عوام سے اپنے لیئے داد بٹورنے کہ چکر میں ہے۔ یہ چور خاران ایف سی کیمپ سے نکلتے ہیں اور کچھ عرصے ان کا ٹاسک چوری کو علاقے کا بڑا مسئلہ بنانا ہے اور پھر انور بادینی کچھ منشیات کی لت میں تباہ نوجوانوں کو منظر عام پہ لاکر اعلان کریں گے کہ انہوں نے چور پکڑ لیئے ہیں یا مار دیئے ہیں۔

اس ڈرامے کے دو اہم مقاصد ہیں، اول عام عوام میں بلوچ سرمچاروں کی مقبولیت ختم کرنا، دوئم انور بادینی کی گرتی ساکھ کو سہارہ دینا۔

میں بحثیت بلوچ قوم کی بیٹی اپنے سرمچار بھائیوں بی۔ایل۔ایف، بی۔ایل۔اے،بی ۔آر۔اے ،بی۔ایل۔ٹی ،یو۔بی۔اے،لشکر بلوچستان سے اپیل کرتی ہوں کہ ہمارے بھائیوں کو ان درندہ صفت افراد کے زہر سے محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں اور امید کرتی ہوں کہ مزید تنبیہہ کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا جائے گا۔ انور بادینی جیسے بُزدل ۔مکاّر اورشیطان کا جلد از جلد بلوچ قومی عدالت میں احتساب کیا جائے گا۔