شہدائے مرگاپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں : بی ایس او آزاد

164

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آذاد کی مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں شہدائے مرگاپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہدائے مرگاپ کی قربانی بلوچ قومی تحریک کی شعور میں اضافے کا موجب ہے۔ شہید غلام محمد، شہید لالا منیر اور شہید شیر محمد جیسے سلجھے ہوئے سیاسی شخصیات کی قتل یقیناً بلوچ قومی تحریک کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے لیکن ان شخصیات کی قربانیاں بلوچ سماج میں انقلابی تبدیلیوں میں اضافے کے باعث بنے ہیں۔ پاکستان جیسے غیر ذمہ دار و جابر ریاست نے بلوچستان کی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئر مین اور بلوچستان کے سب سے متحرک سیاستدان غلام محمد بلوچ اور اس کے ساتھی لالا منیر بلوچ اور بلوچ ریپلکن پارٹی کے مرکزی ممبر شیر محمد بلوچ کو عالمی قوانین کے برخلاف گرفتار کرکے لاپتہ کردیا اور چھٹے دن ان کی پرتشدد لاشیں تربت کےمضافات مرگاپ سے برآمد ہوئے۔ بلوچ عوام نے اس واقع کے خلاف پاکستانی توقعات کے برعکس ایک منظم ردعمل پیش کیا تھا جس کے اثرات تا ابد بلوچ سماج میں نقش ہونگے۔ شہدائے مرگاپ کے قربانیاں نہ صرف بلوچ قومی تحریک کی عالمی پذیرائی میں معاون ثابت ہوئے بلکہ اندرونی طور بلوچ تحریک میں اہم تبدیلوں کے باعث بھی بنے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ شہدائے مرگاپ کی واقع پاکستان کے جانب سے “ مارو اور پھینکو” پالیسی کی ابتداء تھی۔ پاکستان نے مارو اور پھینکو پالیسی کے تحت بلوچ نسل کشی میں شدت سے تیزی لائی جس میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سیاسی کارکنان، طلباء، ڈاکٹرز، وکلاء، استاتذہ، خواتین اور بچوں سمیت تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کو ماروائے عدالت گرفتار کرکے اپنے خفیہ جھیلوں میں قید کیے جبکہ ان لاپتہ کیے گئے لوگوں میں سے ہزاروں کی تشدد زدہ لاشیں بھی برآمد ہوئے اور یہ عمل تسلسل کے ساتھ آج تک جاری ہے۔ پاکستان نے بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو فی الفور ختم کرنے کے لیے اپنے اس جابرانہ پالیسی کا آغاز کیا جس میں پاکستان نے اپنی مکمل طاقت صرف کرنے کی کوشش کی اور اپنی تمام تر توجہ بھی بلوچ نسل کشی پر مرکوز رکھا لیکن عوامی طاقت سے چھلنے والے قومی آزادی کی تحریک کو ختم کرنے میں مکمل ناکام ہوا۔ پاکستان کے ناکامی کی واضح مثال موجودہ تحریک کی سترہ سالوں مسلسل جاری ہونا ہے۔ بلوچ تحریک ان سترہ سالوں میں نہ صرف جاری رہا ہے بلکہ مختلف مراحل اور دشواریوں سے گزر کر ایک شعور یافتہ اور منظم تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔