ریاستی اداروں کے ہاتھوں دو ہزار لاپتہ افراد کی فہرست موصول ہوئی ہے، منظور پشتین

321

پاکستان میں آباد پختونوں کے حقوق کے لیے سرگرم تحریک ‘پشتون تحفظ موومنٹ’ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین نے کہا ہے کہ ان کی تحریک پشتونوں کے قتل میں ملوث تمام افراد کا احتساب چاہتی ہے چاہے وہ طالبان ہوں یا فوجی اہلکار۔

اتوار کو پشاور کے رنگ روڈ پر ہونے والے جلسے سے خطاب میں منظور پشتین نے دعویٰ کیا کہ انہیں مزید دو ہزار کے قریب ایسے افراد کی فہرست موصول ہوئی ہے جنہیں ان کے بقول ریاستی اداروں نے اُٹھایا ہوا ہے۔

پشتون تحفظ تحریک لگ بھگ ڈھائی ماہ قبل قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کے کراچی میں پولیس کے جعلی مقابلے میں ہلاکت کے بعد قائم کی گئی تھی۔

لیکن نسبتاً نوجوان قیادت والی اس تحریک کے کامیاب جلسوں اور مظاہروں نے یہ تاثر دیا ہے کہ یہ تحریک تیزی سے پختون اکثریتی علاقوں میں مقبول ہورہی ہے اور بالخصوص نوجوانوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہے۔

اتوار کو پشاور میں ہونے والے جلسے میں بھی نوجوانوں اور خواتین سمیت لوگوں کی بڑی تعداد شریک تھی جبکہ پشاور کے علاوہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع اور قبائلی علاقہ جات سے بھی قافلے جلسے میں شرکت کے لیے پہنچے تھے۔

اپنے خطاب میں منظور پشتین نے اعلان کیا کہ وہ نقیب اللہ محسود کے قتل کے الزام میں گرفتار پولیس افسر راؤ انوار کی گرفتاری کے بعد اب پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی تحویل میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان کے سابق ترجمان کی عدالت میں پیشی کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کے بعد ان کے بقول جنرل پرویز مشرف کی باری ہوگی۔

منظور پشتین نے اعلان کیا کہ وہ 22 اپریل کو لاہور میں جلسہ کریں گے اور اسی مہینے کی 29 تاریخ کو سوات میں بھی احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔

پشاور کے جلسے کے لیے پختون تحفظ موومنٹ کی عوامی رابطہ مہم گزشتہ دو ہفتے سے جاری تھی جس کے لیے پشاور کے علاوہ مردان، بنوں اور سرحدی علاقے لنڈی کوتل میں کئی مقامات پر تحریک کے حامیوں نے جلوس نکالے تھے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کے مطابق انہوں نے صوبے کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں اور ڈاکٹروں، وکلا اور طلبہ تنظیموں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی انجمنوں کے رہنماؤں کو جلسے میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ لیکن کسی بڑی سیاسی جماعت کا کوئی نمایاں رہنما اتوار کے جلسے میں شریک نہیں ہوا۔

جلسے کے مقام پر انتظامیہ نے غیر اعلانیہ طور پر انٹرنیٹ سروسز بند کردی تھیں جس کے باعث جلسے کی کوریج کرنے والے صحافیوں اور جلسے کے شرکا کو مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب کہ جلسے کی سوشل میڈیا پر کوریج بھی متاثر رہی۔

جلسے کے شرکا میں ایک بڑی تعداد لاپتا افراد کے لواحقین کی بھی تھی جنہوں نے اپنے پیاروں کی تصاویر اُٹھائی ہوئی تھیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کی تحریک کے پانچ مطالبات ہیں جن میں نقیب اللہ کے قتل میں ملوث ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو سزا دلانا، لاپتا افراد کی واپسی اور عدالتوں میں پیشی، مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل ہونے والے افراد کے کیسز کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کا قیام، قبائلی علاقوں سے بارودی سرنگوں کی صفائی اور فوجی چوکیوں پر پشتونوں کی مبینہ تذلیل روکنا شامل ہیں۔

نقیب اللہ محسود کے کراچی میں مبینہ ماورائے عدالت قتل کے بعد ‘پشتون تحفظ موومنٹ’ نے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے فروری میں اسلام آباد میں کامیاب دھرنا دیا تھا جو کئی روز تک جاری رہا تھا۔

اس دھرنے کے بعد یہ تحریک بلوچستان، قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا کے مختلف حصوں میں اپنے مطالبات کے لیے احتجاجی مظاہروں اور جلسوں کا انعقاد کرچکی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

لیکن جیسے جیسے اس تحریک کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے ویسے ویسے اس کے خلاف بھی بالخصوص انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے آواز بلند ہورہی ہے۔ کئی افراد اس تحریک پر قوم پرستی کو فروغ دینے اور ملک دشمنوں کے آلۂ کار ہونے کا الزام بھی لگا رہے ہیں۔

تاہم تحریک کے سربراہ منظور پشتین کا موقف ہے کہ پاکستان کے مقتدر ادارے ان کی تحریک سے خائف ہیں اور اسی لیے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف نہ صرف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے بلکہ انہیں دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کے خلاف پاکستان کے مختلف علاقوں میں ریاست مخالف سرگرمیوں، بغیر اجازت احتجاج اور غداری جیسے الزامات کے تحت مقدمات بھی درج کیے جاچکے ہیں۔

انسانی حقوق کی مؤقر بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کی حکومت کو پشتونوں کے خلاف امتیازی رویے بند کرنے ہوں گے اور اس کا آغاز منظور پشتین اور دیگر مظاہرین کے خلاف قائم فوجداری مقدمات کے خاتمے اور قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کے قتل کی غیر جانبدارانہ تحقیقات اور اس میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ چلانے سے ہونا چاہیے۔