رودادِ زندان
میری کہانی میری زبانی
عبدالواجد بلوچ
لسبیلہ یونیورسٹی میں میرین سائنس کا طالب علم ہونے کے بنا پر اکثر تعلیم کے سلسلے میں مختلف اوقات چھٹیاں ہوتی رہتی تھیں، تو اس دوران میں زیادہ تر شال کراچی یا اپنے آبائی علاقے مند چلا جاتا تھا۔ سنہ دوہزار بارہ تیرہ فروری کو میں جب مند سے تربت پھر کراچی کے بس پر سوار محو سفر تھا، تو شام چھ بجے کے قریب پسنی زیرو پوائنٹ پر مجھے پاکستانی خفیہ اداروں اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے بس سے اتار کر، انتہائی زد و کوب کا نشانہ بنانے کے بعد صرف ایک سوال پوچھا کہ ’’نوری خان مندی ‘‘ تم ہو؟
یہ وہ نام تھا جس سے اس وقت میں روزنامہ توار اور آساپ میں مضامین لکھتا تھا، میرے اسرارکے باوجود انہوں نے میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر، ہاتھ پاؤں کَس کر باندھنے کے بعد مجھے جانوروں کی طرح ایک گاڑی میں ڈال کر مجھے اپنے ہمراہ ایک نامعلوم مقام پر لے گئے، اس دوران میں نے کئی بار دریافت کیا کہ کس جرم کی پاداش میں میرے ساتھ ایسا سلوک کیا جارہا ہے؟ تو ان کی جانب صرف گالیوں اور مکوں کی برسات ہوتی تھی، پر جواب نہیں تھا۔ اسی تکرار کے دوران اس گاڑی میں سوار ایک فوجی اہلکار بولنے لگا، جو اندازِ تخاطب سے کوئی آفیسر لگ رہا تھا کہنے لگا کہ “اس کو لیجاکر کیا کریں گے؟ اسے ادھر ہی برسٹ مار کر پھینک دیتے ہیں۔”
میں انتہائی گھبراہٹ اور سراسیمگی کی حالت میں ان کی باتیں سن رہا تھا، تو ایک فون کی گھنٹی بجی جو کہ لاؤڈ اسپیکر پر تھا، پنجابی لہجے میں ایک دوسرے کے ساتھ وہ باتیں کررہے تھے، فون کرنے والے کی طرف سے یہی بات کی جارہی تھی کہ بندہ مل گیا، اسے جلدی لے آئیں، صاحب انتظار کررہے ہیں۔ میں نے دل ہی دل میں شکر بجا لائی کہ کم از کم مرنے سے تو بچ گیا۔ تقریباً ایک گھنٹے کی طویل مسافت کے بعد بلآخر ان کی گاڑی ایک جگہ پر رک گئی، مجھے بازؤں سے پکڑ کر جانوروں کی طرح گھسیٹے ہوئے ایک کمرے میں لے جایا گیا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کچھ لوگ پہلے سے یہاں میرا انتظار کررہے ہیں۔
میرے ہاتھ اور پاؤں پہلے سے بندھے ہوئے تھے، آنکھوں پر ایک سیاہ پٹی بندھی تھی۔ مجھے بٹھایا گیا اور میرے رو برو ہی ایک بندے نے مجھ سے اپنا تعارف کرانے کی فرمائش کی۔ حسب معمول میں نے اپنا تعارف کرایا، تو دوسری جانب ایک بندہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا، ہاں جناب پاکستان توڑنے کے لیئے سرگرم ہو؟ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا “نہیں سر میں ایک طالب علم ہوں اور ایک سیاسی کارکن ہوں، اپنے تعلیمی ادارے میں ایک طلباء تنظیم سے میرا تعلق ہے اور کچھ نہیں۔” تو انہوں نے کاغذوں کا ایک بنڈل نکال کر مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ جناب تم لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہو، تمہاری تمام تحریرں ہمارے پاس ہیں اور تم نے گوادر کے حوالے سے پاکستان کے خلاف انتہائی شدید زبان استعمال کی ہے۔
یہ اس وقت کی بات ہے، جب پاکستانی وفاق صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر گوادر کو مقبوضہ بلوچستان کا دارلحکومت بنانے کا منصوبہ بنا رہے تھے، تو اسی حوالے سے میں نے نوآبادیاتی نظام اور بلوچ کے اقلیت میں تبدیل ہونے کے خدشے کے پیش نظر، وہ آرٹیکل تحریر کی تھی جو روزنامہ توار میں شائع ہوچکا تھا، اور اس کے علاوہ 3نومبر2011کو خفیہاداروں کے ہاتھوں شہید ہونے والے دوست بلوچ اسٹوڈنٹس کے کارکن شہید زبیر زاہد بلوچ جو کہ ساحلی علاقے پسنی کا رہائشی تھااور میرا دوست بھی تھا کے بارے میں ایک آرٹیکل لکھا تھا۔ جس میں میں نے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا تھا، ان دونوں آرٹیکلز کے مسودات لاکر انہوں نے مجھ سے پوچھ گچھ شروع کی اور اسی اثناء مجھے بہت زدو کوب کیا گیا، ہاتھ اور پاؤں ساتھ باندھ کر مجھے لٹکا دیا گیا اور چھتر کے ساتھ مجھے مارنا شروع کردیا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ مجھے کس چیز کی سزا دی جارہی ہے۔
ایک گھنٹہ ٹارچر کرنے کے بعد مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں لایا گیا، جہاں مجھے ایک زنجیر کے ساتھ باندھ دیا گیا جو کہ ایک کال کوٹھڑی ہی تھی۔ یہاں اس کمرے کے ساتھ چار اور کمرے بھی تھے اور ان کمروں میں اور بندے موجود تھے کیونکہ مجھے ان کی آوازیں اور سکنات سنائی دے رہے تھے۔ رات بہت ہوچکی تھی، میں انتہائی پریشان تھا کیونکہ مجھے یقین ہوچلا تھا کہ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے، اسی لیئے مکمل ذہنی تیاری کے ساتھ اگلے دن کا انتظار کررہا تھا۔ ساری رات پریشانی اور انتہائی کرب سے گذار رہا تھا، دکھ اس بات کی نہیں تھی کہ میں پکڑا گیا ہوں بلکہ حیران میں اس لیئے تھا کہ خفیہ ادارے والے میرا موبائل فون کھول کر بہت سے سیاسی دوستوں تک پہنچنا چاہتے تھے۔ دوسرے دن صبح سویرے مجھے ٹارچر سیل لے جایا گیا، تو مجھے میرے کھلی ہوئی موبائل دی گئی اور مجھے کہا گیا گھر بات کروں اور اپنے گھر والوں سے کہوں کہ میں کراچی پہنچ چکا ہوں لہٰذا گھبراہٹ کی حالت میں میں نے ایسا ہی کیا لیکن جس وقت میں اغواء ہوا تھا، دوسرے دن کسی بھی طرح میرے گھر والوں کو اس کی خبر پہنچ گئی تھی، تو جب خفیہ ادارے والے مجھے مسلسل سیاسی دوستوں جن کے نمبرز میرے پاس تھے، ان سے زبردستی رابطہ کرانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے تو سارے دوستوں کو معلوم ہونے کے بناپر، سب اپنے نمبرز بند کرچکے تھے۔ جس وہ سے میرا رابطہ ممکن نا ہوسکا، اسی بنا پر انہوں نے مجھے بہت زیادہ ٹارچر کی اور مارنا شروع کیا اور کچھ ایسے نمبرز لائے جو بظاہر بلوچ مزاحمت کاروں کے تھے اور مجھے کہا کہ ان سے رابطہ کروں تاکہ ہم ان کو پکڑ سکیں لیکن نصیب کی بات یہ ہے کہ جن جن نمبرز کو انہوں نے کال کرنے کی کوشش کی وہ بند آرہے تھے۔
میرے علاقے کے چند سیاسی دوست جن کے ساتھ ہمارا گہرا تعلق اور دوستی تھی ان کو بھی پکڑنے کی بہت کوشش کی گئی اور مجھے انتہائی ٹارچر سہنا پڑا کہ جب تک ان لوگوں کو نہیں پکڑواوگے زندگی اجیرن بنا دیں گے۔ میری ساری فیملی بیک گراؤنڈ بمعہ عورتوں اور بچوں کے کوائف لینے کے ساتھ ساتھ، مجھ سے طرح طرح کے سوالات کیئے گئے، مثال کے طور پر
پاکستان کو کیوں توڑنا چاہتے ہو؟
پاکستان کے خلاف تحریرں کیوں لکھتے ہو؟
کس کس بلوچ مسلح تنظیموں کے ساتھ تمہارا تعلق ہے؟
پیسے کہاں سے آرہے ہیں؟
کیمپس کدھر ہیں تم لوگوں کے ؟
ہتھیار کہاں چھپائے ہیں؟
ریلی اور مظاہروں میں کیوں شرکت کرتے ہو؟
بلوچستان کی آزادی اور حقوق کی باتیں کیوں کرتے ہو؟
وہ لوگ جو پاکستان کے ساتھ ہیں ان کا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟
آبادکاروں کو کیوں قتل کرتے ہو؟
تم بڑے لکھاری سمجھتے ہو اپنے آپ کو کیا اپنے قوم کو شعور دینے کا ذمہ لیا ہوا ہے؟
تم لوگ گوادر گوادر کیوں کرتے ہو؟ گوادر تو پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے جسے ہم نے عمان سے خریدا ہے اور گوادر کے باشندے محب وطن پاکستانی ہیں۔ انکے علاوہ اور بھی بہت سے سوالات بلوچ اور بلوچستان کے متعلق مجھ سے پوچھے گئے۔ بلوچ مسلح تنظیموں کے سربراہان سمیت ایک ایک کارکن کے بارے میں بھی مجھ سے سوالات کیئے گئے۔
بلوچ پارلیمنٹرینز کے بارے میں پوچھ تاچھ بھی کی گئی کہ کیوں ان کے ساتھ نہیں مل جاتے؟ بالخصوص بی این پی مینگل اور حاصل بزنجو کے بارے میں اچھے کمنٹس دے کر ان کے ساتھ ہونے کا اشارہ دیتے تھے۔ تقریباً پانچ گھنٹے کی اس طویل پوچھ تاچھ اور ساتھ میں انتہائی تھرڈ ڈگری کی اذیتیں جن میں الٹا لٹکانا اور کپڑے نکال کر چھتر کے ساتھ مارنا شامل تھے کے بعد، میرے موبائل فون سمیت جتنے بھی چیز میرے ساتھ تھے، ان کو ضبط کرلیا گیا۔ پانچ گھنٹے سوالات کرنے کے بعد میری حالت خراب ہوئی تو مجھے واپس اسی کمرے میں لے جایا گیا، جہاں مجھے رات ٹہرایا گیا تھا۔
جس کمرے میں ہم تھے، وہاں نہ سونے کے لیئے کوئی چادر تھا اور نا کوئی چٹائی، صرف ایک ہلکا سا شال تھا، جس پر ہم سوتے تھے۔ اس کے علاوہ دن میں صرف ایک بار قضائے حاجت کے لیئے لے جایا جاتا تھا، تین منٹ کے سوا زیادہ وقت کی گنجائش ہی نہیں تھی، ورنہ وہ اہلکار ٹوائلٹ کا دروازہ کھول لیتا تھا۔ اس کے علاوہ باقی اسی کمرے میں ایک چھوٹا ڈبہ دے کر ہم اسی کے اندر پیشاب کیا کرتے تھے، کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا تھا جب وہ بھرجاتا تھا تو ہمیں کئی گھنٹے اپنا پیشاب روکنا پڑتا تھا۔ تب تک جب دوسری صبح آجائے ۔ مجھے ابھی تک وہ لمحہ یاد ہے کہ زندان میں اسوقت مجھے تین مہینے گذر گئے تھے، ایک دن مجھے انتہائی زور سے پیشاب کی حاجت ہوئی تھی، ڈبہ بھرا ہوا تھا، تو کوئی چارہ نہیں تھا، مسلسل روکنے کے سبب مجھے انتہائی تکلیف محسوس ہورہی تھی اور صبح ہونے کو دو گھنٹے باقی تھے، جب ہمیں ٹوائلٹ لے جایا جاتا تھا۔ جب وہ وقت قریب آیا تو میرا نمبر آخری تھا کیونکہ میں آخری کمرے میں تھا، ٹوائلٹ لے جاتے وقت وہ ہمیں کھڑا کرکے بھرا ہوا ڈبہ ہاتھ میں لیکر انتظار کرواتے تھے، اسی انتظار میں اور پیشاب کی انتہائی زور کے سبب کھڑے کھڑے مجھ پر غشی طاری ہوگئی اور میں گرگیا، ہاتھ میں پکڑے سارے گندے فضلات میرے اوپر گرے اور سارہ کمرہ بھی گندا ہوگیا۔ اس چیز کو دیکھتے ہوئے ایک اہلکار آگیا انہوں نے مجھے انتہائی سخت ٹارچر کا نشانہ بنایا اور مجھے سارہ کمرہ صاف کرنا پڑا۔
مجھے شروع کا ایک ہفتہ مسلسل مختلف قسم کی اذیتیں دی گئیں اور دن کو چار گھنٹے رات کو دو گھنٹے پوچھ تاچھ کے ساتھ ساتھ ٹارچر بھی کیا کرتے تھے۔ ویسے عام صورت میں چوبیس گھنٹے آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی ہوتی تھی لیکن پوچھ گچھ اور تشدد کے مخصوص وقت میں اس پٹی کے اوپر ایک بڑا سا سیاہ نقاب چڑھایا جاتا تھا۔ جس سے بالکل کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ اس طرح کے انسانی حقوق اور انسانیت کے وقار کی اتنی مجروحیت شاید میں نے کہیں دیکھا ہو۔ انتہائی غلیظ گالیاں دی جاتی تھیں۔ اس ٹارچر خانے میں میرے ساتھ پہلے مرحلے میں بلوچ سیاسی کارکن بابا بوھیر بلوچ، حنیف بلوچ، ولید افضل اور شہید نبیل بلوچ جنہیں بازیابی کے بعد نا معلوم افراد نے قتل کیاتھا بھی تھے، جنہیں خفیہ اداروں اور سیکیورٹی فورسز نے اٹھایا تھا۔
ان لوگوں کے ساتھ کبھی کبھار خاموشی میں بات ہوتی رہتی تھی، ہم ایک دوسرے کا چہرہ تو نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن ایک دوسرے کی باتیں سنتے تھے۔ جس کمرے میں میں تھا، اس کمرے میں دیوار پر مختلف نام لکھے تھے، جو صاف واضح نہیں تھے لیکن مجھے ایک جگہ شہید سنگت ثناء بلوچ (بی آر پی کے مرکزی رہنماء )اور شہید زبیر زاہد بلوچ(بی ایس او آزاد ) کا نام لکھے ملے۔ مجھے یقین ہوچلا کہ وہ بھی ادھر بند تھے۔ شہید ثناء سنگت کی لکھی مختصر تحریر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے لکھا تھاہمارا جسم فناء ہوسکتا ہے پر سوچ نہیں۔ اس سے پہلے بابا بوھیر بلوچ(بی این ایم)،حنیف بلوچ(بی ایس او) اور ولید افضل ،نبیل بلوچ (عام بلوچ )کو یہاں سے نکال دیا گیا تھا، تین مہینے اس بند جگہے پر میں تنہاء تھا۔ اس دوران کچھ وقت ولید افضل بلوچ سے میرے بات ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب میں تربت میں موجود خفیہ اداروں کے پاس تھا، تو وہاں سنگت ثناء بلوچ، نصیر کمالان بلوچ بھی تھے۔ اس کے علاوہ شہید سمیر بلوچ بھی وہاں قید تھا، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شہید سنگت ثناء نے مجھ سے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ یہاں سنگت جلیل ریکی کو بھی لایا گیا ہے۔
اس سے پہلے 29 اگست2007کو جب میں کسی دوسرے دوست کے ساتھ مند کے علاقے سوراپ میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھو ں گرفتار ہوا تھا، تو ایک مہینہ حبس بے جاہ میں رکھے جانے کے بعد مجھے رہائی نصیب ہوئی تھی۔ اسی حوالے سے مزید تحقیقات کے لیئے چار مہینے بعد یہاں سے مجھے تربت منتقل کیا گیا، دو مہینے تربت میں آئی ایس آئی کے تحویل میں تھا، وہاں مختلف قسم کی اذیتیں دی گئیں، یہاں بھی وہی سوالات اور بے جا تشدد روز کا معمول تھا۔ جس میں سرد راتوں کو ایک چھوٹے کمرے میں پنکھا چلا کر ہمیں ذہنی و جسمانی حوالے سے ٹارچر کیا جاتا تھا۔ اس دوران اس اذیت خانے میں ایک بزرگ شخص میرے ساتھ والے کمرے میں بند تھا، جن کو بہت ٹارچر کیا گیا تھا، ساتھ ہی ایک دوسرے کمرے میں موجود ایک لڑکا جس کو میں نہیں جانتا، مسلسل ٹارچر اور طویل حبس بے جاہ میں رکھنے کی وجہ سے پاگل ہوچکا تھا۔ اسی جگہ ایک اہلکار نے مجھے ٹارچر کرنے کے بعد میرے کپڑے اتار دیئے اور میرے ساتھ بد فعلی کرنے کی کوشش کی جس سے میں چلا اٹھا اور اس نے مجھے چھوڑ دیا۔
تربت میں مجھ سے زیادہ سوالات بلوچ مسلح تنظیموں کے بارے میں پوچھی گئیں تھیں کیونکہ ان کی یہی کوشش تھی کہ کسی طرح مجھے بلوچ مسلح تنظیموں سے منسلک کرکے مجھ سے بہت سے جوابات اگلوائے جائیں۔ بہت سے عام لوگوں کے بارے میں پوچھ گچھ کیا کرتے تھے، حتیٰ کہ علاقائی حوالے سے روزمرہ زندگی اور مصروفیات کی بھی معلومات لینا ان کا روٹین تھا۔ چونکہ اس وقت میرا تعلق بلوچ طلباء تنظیم بی آر ایس او کے ساتھ تھا، تو انہوں نے مجھ سے ان تمام یونٹس زون اور یونیورسٹی یونٹ کے بارے میں بھی معلومات لینے کی کوشش کی تھی۔ دو مہینے کی تحقیقات کے بعد مجھے واپس اسی جگہ شفٹ کیا گیا، جہاں میں پہلے تھا۔
جولائی کے مہینے میں جہاں میں قید تھا، وہاں بہت سے بلوچ نوجوان اور قیدیوں کو لایا گیا، یہ دورانیہ انتہاء درجے کا کرب تھا کیونکہ اذیت اور سزاؤں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، معلوم نہیں کہ باہرکی دنیا میں کیا واقعہ رونماء ہوا تھا لیکن یہاں ہمارے ہاں، ہم پر قیامت برپا کیا گیا تھا۔ میرے سامنے ایک لڑکا جو کہ میرے ساتھ والے کمرے میں بند تھا، ان کو ایک ہفتہ مسلسل سیل کے ساتھ باندھ کر لٹکا دیا گیا اور ان پر تشدد بھی کیا گیا، ساری رات ان کی چیخیں اور درد سے ہم بھی سو نہیں پائے، آٹھویں دن جب دو اہلکار اس کمرے میں داخل ہوئے توایک کی آواز مجھے سنائی دی اس نے کہا کہ یہ بندہ مر چکا ہے۔ اس کو وہاں سے نکال لیا گیا، بدقسمتی سے اس کے ساتھ میری بات نہیں ہوپائی کہ وہ بندہ کون تھا، فقط اتنا معلوم ہوپایا کہ وہ ایک بلوچ ہے۔ اس کے علاوہ ایک دن ایک بندے کو لایا گیا جس کے ساتھ میری تھوڑی بات ہوئی تھی، جس کا نام عبدالرزاق ولد پلاری تھا، جو کہ پیشکان کا رہنے والا تھا، ان کو اتنا ٹارچر کیا گیا کہ اس کے جسم پر اسٹیل کے کیل ٹھونکے گئے، چونکہ وہ میرے ساتھ والے کمرے میں بند تھا، تو انہوں نے مجھے کہا کہ پیشکان میں کوسٹ گارڈ پر بلوچ مزاحمت کاروں نے حملہ کیا تھا، جس سے کئی ہلاکتیں ہوئیں ہیں، اسی بنا پر خفیہ اداروں نے مجھے پکڑا ہے چونکہ میں ایک عام سا بندہ ہوں اور علاقے میں میرا کاروبار ہے، شاید کسی شخص نے میری مخبری کی ہو۔ بعد میں میں جب رہا ہوا تو مجھے پتا چلا ان کی مسخ شدہ لاش پھینکی گئی۔
ایک دن بھی ایسا نہیں گذرا کہ ایک نئے بندے کو یہاں نہیں لایا گیا ہو، اس دوران بہت سے نوجوانوں کو لاپتہ کرکے اس مخصوص جگہ پر لایا گیا جگہ کم پڑنے کی وجہ سے کبھی کبھار برآمدے میں ان افراد کو رکھا جاتا تھا۔ ایک اور نوجوان جس کا نام جنید بلوچ تھا جو شاید گوادر کا رہنے والا تھا جو کہ اٹھارہ سال کی عمر میں داخل ہوچکا تھا اچانک اسی لمحے میری ان سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے بہت اذیتیں دی گئیں ہیں، یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ میرا ایک بھائی بلوچ جہدکاروں کے ساتھ ہے۔
آخری ایام میں ان لوگوں کا ارادہ تھا کہ ہمیں کسی دوسری خفیہ مقام پر منتقل کریں، کیونکہ یہاں جگہ بہت کم پڑگئی تھی، اسی دوران ہارون بلوچ نامی بندے کو بھی شہید کیا گیا، دو گھنٹے بعد ہمیں کسی دوسری جگہ منتقل کیا گیا جو کہ غالباً کراچی یا اس کے قریب کوئی علاقہ تھا، اس جگہ پر میں نے بہت سے دوسرے بلوچ قیدیوں کی آوازیں سنیں، یہاں خوش قسمتی سے میرا ایک لڑکے سے بات چیت ہوئی، جس کا نام مقبول ولد رحمت اللہ تھا جو گومازی تمپ کا رہائشی تھا، ان سے وعدہ اقرار ہوا کہ جب میں بازیاب ہوجاؤں تو آپ کے فیملی کو آپکی سلامتی کا اطلاع دونگا اور جب آپ بازیاب ہوں تو میرے بارے میں اطلاع دیں لیکن بدقسمتی سے جب میں تیرہ مہینے بعد بازیاب ہوا تو مجھے پتہ چلا کہ ان کی مسخ شدہ لاش 13فروری2013 کو پھینک دی گئی ہے۔ اسی جگہ ایک اور نو عمر لڑکے کوجو کہ طویل مدت سے یہاں بند تھا، مختلف ٹارچر کرنے کی وجہ سے ذہنی طور پر مفلوج بنادیا گیا تھا، اس کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کس حال میں ہے، حتیٰ کہ جس کمرے میں تھا اسی کمرے میں پیشاب اور پاخانہ کیا کرتا۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ گندا ہوچکا ہے۔
اس جگہ مجھے دو مہینے رکھا گیا، خوش قسمتی سے یہ وہ جگہ تھا جہاں میں جسمانی ٹارچر سے بچ گیا، بس قید تنہائی اور آنکھوں کی مسلسل سیاہ پٹی کے ساتھ بندھا ہونا اور انٹیروگیشن کا سلسلہ جاری تھا، دو مہینے کے بعد ایک رات غالباً رات ایک بجے ہونگے، میں اپنے کال کوٹھڑی میں سو رہا تھا تو ایک اہلکار وہاں آگیا، اسکے پاس ایک بڑا سا گھانٹ تھا، جس میں چپلیں جوتے اور چوٹ تھے، اسے کھول کر میرے سامنے رکھ کر، مجھے ایک جوڑہ جوتا اٹھانے کا کہا، میں پریشان تھا کہ معلوم نہیں کیا ماجرہ ہے۔ تو تقریباً آدھے گھنٹے بعد ایک دوسرا بندہ آگیا، میری آنکھوں پر ایک نئی سیاہ پٹی باندھی گئی، ہاتھوں کو پیچھے باندھ لیا گیا، سر پر ایک بہت بڑا سیاہ چادر ڈال دیا گیا اور مجھے ایک گاڑی میں سوار کرکے یہاں سے نکال لیا گیا۔
تقریباً چالیس منٹ کی مسافت کے بعد انتہائی جلدی میں دو اہلکاروں نے مجھے دونوں بازووں سے پکڑ کر گھسیٹنے لگے، مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ مجھے ایک ڈھلان سے نیچے اتارا جارہا ہے، جو شاید ایک کھائی تھی، وہاں مجھ سے کہا گیا کہ فورا بیٹھ جاؤ، میرے ہاتھ کھولے گئے لیکن آنکھیں مسلسل بند تھیں اسی بیٹھنے کی حالت میں ایک اہلکار نے کہا کہ ہلو نہیں ورنہ گولی ماردی جائے گی، میرے ہاتھوں میں کاغذ کی ایک تھیلی تھمائی گئی۔ میں مسلسل بیس منٹ اسی حالت میں بیٹھا رہا۔ جب مجھے محسوس ہوا کہ کچھ بھی نہیں ہورہا، تو میں آہستہ آہستہ ہلنے لگا، جب ہاتھ اوپر لائے تو کچھ بھی نہیں ہورہا تھا، میں نے اپنی آنکھیں کھول لیں، اردگرد دیکھا تو میں ایک بڑے کھڈے کے اندر تھا اور اوپر سے ایک بہت بڑا ہائی وے گذر رہا تھا۔ میں انتہائی خراب حالت کی وجہ سے بمشکل اس کھڈے سے باہر نکلا، مجھ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کون سی جگہ ہے۔
اسی سڑک کنارے آہستہ آہستہ چلتے چلتے میں نے ایک سائن بورڈ دیکھا جس پر ایک مدرسے کا نام درج تھا اور آخر میں لکھا ہوا تھا کراچی رئیس گوٹھ تو مجھے یقین ہو چلا کہ یہ کراچی ہے۔ میں سہمہ ہوا تھا اور ڈر رہا تھا کیونکہ مجھے پولیس کی مسلسل گشت اور ان کے گاڑیوں کی سائرن کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور میرے بال اور داڑھی بہت بڑھی ہوئی تھیں۔ میں اس خوف میں مبتلا تھا کہ کہیں پولیس مجھے دوبارہ پکڑ کر نہ لے جائے، اس مدرسے منسلک مسجد کے ساتھ ہی ایک جگہ پر کچھ لوگ باہر سو رہے تھے، کسی بھی طرح وہاں پہنچا، انہیں جگایا اور ان سے کہا کہ میں فلاں جگہ سے آرہا ہوں اور ایسا ایسا واقعہ میرا ساتھ پیش آیا ہے لہٰذا اس نمبر پر برائے مہربانی کال کریں، میرے لوگ مجھے لینے آئیں گے، خوش قسمتی سے اس وقت میری ساری فیملی کراچی میں موجود تھا، تو وہ مجھے اسی جگہ لینے آگئے۔ ایک مہینے کراچی میں میں نے مسلسل اپنا علاج کروایا، میری آنکھوں اور ریڈھ کی ہڈی میں مسئلہ تھا اور کندھے بھی مسلسل ٹارچر کی وجہ سے تکلیف میں تھے، مکمل علاج کے بعد میں دوبارہ اپنے علاقے پہنچ گیا۔
انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی جس طرح بلوچ سرزمین پر پاکستانی خفیہ اداروں اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہورہی ہے، وہ کسی دوسری جگہ ناممکن ہے کہ ہو، ایک تو ماورائے عدالت و قانون گرفتاریاں و قتل کرکے انصاف کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی موجودہ کنونشنز کی کھلی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ پاکستانی خفیہ ادارے اور سیکیورٹی فورسز ببانگ دہل کہتے ہیں کہ ہم کسی بھی قانون، خواہ وہ ملکی ہوں یا بین الاقوامی سے مبرا ہیں اور کوئی ہم سے پوچھنے والا نہیں اور واقعی بلوچ مسنگ پرسنز کے حوالے سے ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ مسنگ پرسنز کا مسئلہ آئے روز شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی پر مکمل پابندی اور سیاسی حقوق کے حوالے سے بات کرنا پاکستان میں ایک بڑا جرم ثابت ہوچکا ہے۔ ہمیں نا اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا جاتا تھا اور نا ہی ہماری باتیں سننے کے قابل سمجھی جاتی ہیں۔ مہینوں، سالوں ایک ہی کمرے میں بے سرو سامانی کی حالت میں پڑے رہنا اور مختلف اوقات میں مذکورہ جگہ اور مخصوص اذیت خانوں میں لے جاکر ازیتیں دینا انسانیت کی تذلیل کے برابر ہے۔ سیاسی کارکن ہوں یا کہ عام بلوچ جب بھی کوئی بات کرتا ہے تو انہیں مسنگ پرسنز کی لسٹ میں شامل ہونا پڑتا ہے۔