ذہنی غلامی سے نجات – ٹِک تیر بلوچ

1526

ذہنی غلامی سے نجات

تحریر: ٹِک تیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

جسمانی غلامی سے نجات مل سکتی ہے لیکن ذہنی غلامی نسلیں برباد کر دیتی ہے، غلام آقا کو لا شعوری آئیڈیل مان لیتا ہے۔ جسمانی آزادی کے بعد ہر شے اپنے آقا کی طرح کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جسمانی آزادی کے بعد بھی اپنے آقا کی ہی خوشنودی کی چاہ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک عجیب قسم کی خودی کا شکار بن جاتا ہے اور اپنی ذہنی اور جھوٹی انا کی تسکین اور بھوک مٹانے کی خاطر تمام اخلاقیات بھلا کر چلنے کو عین حق سمجھتا ہے۔ ذہنی غلامی ان رویوں کا باعث بنتی ہے جو مزید غلامی کا باعث بنتے ہیں۔ جب عدل کا پیمانہ خواہش نفس اور ذاتی یا گروہی مفاد بننے لگیں تو معاشرے تباہی کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں۔

جو لوگ ذہنی غلامی سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اس کے لئے بالعموم مناظرے اور بحث مباحثے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔

ذہنی غلامی کو ختم کرنے کا یہ طریقہ نہایت ہی غیر موثر اور بے کار ہے۔ اس طریقے سے کسی شخص کو ذہنی غلامی سے نکالا تو نہیں جا سکتا البتہ اسے اپنی روش پر مضبوط ضرور کیا جا سکتا ہے۔ بحث مباحثے کے ذریعے صرف اور صرف اس شخص کو تبدیل کیا جا سکتا ہے جو کسی دوسرے کا فکری غلام نہ ہو بلکہ صرف اور صرف دلائل کی بنیاد پر اپنا نقطہ نظر تشکیل دیتا ہو۔

کسی قوم کو ذہنی غلامی کے گڑھے سے نکالنے کے لیئے جن بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے، انہیں ہم ان عنوانات کے تحت بیان کر سکتے ہیں:

• آزادی کی تحریک سے ہمدردی
• مخلص اور مفاد پرست راہنماؤں میں فرق کرنے کی صلاحیت
• ڈی کنڈیشنگ کا عمل

ان میں سے پہلے دو اقدامات کا تعلق اس بات سے ہے کہ جو افراد ابھی زہنی غلامی سے محفوظ ہیں، انہیں مستقبل میں کسی بھی راہنما کا فکری غلام بننے سے روکا جائے جو ریاستی کاسہ لیس ہوں۔ تیسرے اقدام کا تعلق ان افراد سے ہے جو کسی شخصیت کی ذہنی غلامی کے چنگل میں پھنس چکے ہیں۔

ہر قسم کی غلامی کے مکمل خاتمے کے لیئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی تحریک آزادی میں شامل ان وفادار وقوم دوست سنگتوں و راہنماؤں کی فکر کو ایک مثبت قدر بنا کر پیش کریں جنکی قربانیاں قوم کے لیئے ایک مثال ہوں، اور ایک طویل عرصے تک صبر آزما عمل کے تحت برداشت کرتے رہیں، جب تک وه قوم مکمل ذہنی غلامی کے گڑھے سے نکل نہ جائے- کیونکہ جو شخص کسی کا فکری غلام بن چکا ہو، اسے اس گڑھے سے نکالنے کے لئے ایک طویل اور صبر آزما عمل کی ضرورت پڑتی ہے جسے علم نفسیات میں “ڈی کنڈیشنگ(Deconditioning)” بهی کہا جاتا ہے۔