بلوچ قومی سوال ماضی، حال اور مستقبل – سنگت برھان زئی – آخری حصہ

408

بلوچ قومی سوال

ماضی، حال اور مستقبل

سنگت برھان زئی

(آخری حصہ)

(حصہ اول) 

(حصہ دوئم)

اس ساری صورتحال کا نتیجہ یہ ہوا کہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک ایک نئے اور جدید دور میں داخل ہوئی، چونکہ میر یوسف عزیز علی مگسی جدید قومی آزادی کے بانی تھے اور آپکے محنت کا ثمر بلوچ وطن میں سیاسی تشکیل نو کا باضابطہ آغاز تھا، اس لیئے 11 اگست 1947 کی آزادی مکمل طور پر پرُامن سیاسی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ مگر 27 مارچ 1948ء کا جبری قبضہ مسلح جدوجہد کا بھرپور اظہار تھا، جس کےمسلح جدوجہد اور سرفیس سیاست ساتھ ساتھ چلتے رہےتھے لیکن بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں مسلح جدوجہد کی کشش زیادہ رہی، مگر اس کے باوجود سرفیس کی اہمیت نمایاں انداز میں حاوی رہا، جس نے قومی آزادی کی تحریک کو قلات کے دائرے سے نکال کر شعوری طور پر پورے بلوچ معاشرے میں پھیلا دیا۔ اسی لئے روزاول سے ہی بلوچ سرفیس سیاست پر پاکستانی ریاست کا عتاب سخت سے سخت رہا۔ ہمارے بزرگوں نے انتہائی کھٹن حالات میں بلوچ سرفیس سیاست کو بلوچ قوم کے تمام پرتوں میں روشناس کیا۔ جیل، قید و بند، جائیدادوں کی ضبطی، جلاوطنی، املاک کی تباہی حتیٰ کے جان تک کی قربانی بھی دیتے رہے۔ مگراپنے موقف کو ہر حال میں نمایاں کرنے میں کامیاب ہوئے۔

گوکہ بلوچ سیاست اتنی آسان نہیں رہی ہے، کیونکہ قبائلی مزاج ، ضد کینہ پروری، انائیت ، شکوک اور دوسری بہت سی کمزوریاں ہر وقت قومی آزادی کی سیاست کو زہر قاتل کی طرح کھلتے رہے، لیکن اس کے باوجود بلوچ قومی آزادی کا جذبہ ناتواں صحیح مگر برقرار ضرور رہا۔ اسی قومی جذبے کے بدولت تمام پرتوں نے قدم قدم رہ کر بلوچ قومی سوال کو اثر پذیری کے مراحل سے گزار کر پر تاثر انداز میں کیفیتی مضمرات کو ہر سمتوں میں پھیلا دیا۔ ہمارے ان بزرگوں نے شروع دن سے عالمی انقلابی تحریکات کو بلوچ قومی آزادی کی تشریحات میں شامل کرکے تحریک کو مکمل طور پر روشن خیالی کی سمتیں فراہم کرکے تمام قسم کے خرافات سے الگ کردیا۔ 1948ء کی انسرجنسی سادگی سے بھرپور تھی، جو صرف قلات کے گردنواح کا احاطہ کرسکی۔ مگر اس کو مکمل جامع اور مربوط طریقے سے بلوچ معاشرے کے طول و عرض میں پھیلانے کا سہرا سیاست کی بین الاقوامی شعور رکھنے والے بعد کے اصلاف کی مرہونِ منت ہے۔ اس انسرجنسی کو لیکر ہمارے بزرگوں نے کمال محنت سے سیاسی قالب میں ڈھال کر آگے بڑھنے کا ذریعہ بنایا۔ خاص کر 1950ء کی دھائی بلوچ قومی سیاست میں اعلیٰ پیمانے کی زبردست جست تھی۔

1950ء کی دھائی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ بلوچ، اعلیٰ ملازمین نے اپنی مراعات یافتہ سرکاری نوکریوں کو ٹھوکر مارکر بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں ادب اور سیاست کی نئی داغ بیل ڈال دی۔ ترقی پسند تحریک سے وابسطہ ان بزرگوں نے بیک وقت ادب اور سیاست کو قومی رنگ میں رنگ کر بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو جدید مزاحمت کی بنیادیں فراہم کی۔ ان کا ویژن بنیادی طور پر نواب یوسف عزیز مگسی کےجدید قومی سوچ پر منظم تھا۔ ان ہی کی کاوشوں نے بہترین طریقے سے بلوچ قومی آزادی کو مکمل سیاسی اپروچ دی جو روایاتی قبائلی پس منظر سے بالکل الگ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے آنیوالے سالوں میں بکھری ہوئ سوچ کو مستقل بنیادوں پرسر فیس سیاسی جماعتوں کے ساتھ روابط استوار ہوئے۔ یہی پچاس کی دھائی بلوچ سیاست میں زبردست ابھار کی دھائی ہے۔ اس پر حیثت تناظر کو روا دوا کرکےآگے بڑھاتے رہے۔ تا وقت 1958ء کا ایوبی مارشل لائی جبر نے بابو نواب نوروز خان اور ان کے سر مچاروں کی زبردست قابل قدر قوت کا اعلیٰ مظاہرہ دنیا نے دیکھا۔

گو کہ شہید نواب نوروز خان اور آپکے سرمچاروں کی اس جنگ کی شروعات خان قلات کی حیثیت کی واپسی و بحالی تھی مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محض ان سالوں کے اندر یہ دوسری اہم انسرجنسی تھی، پھر اسی طرح کا طریقہ آپ کے ساتھ اختیار کیا گیا یعنی ریاست کی جانب سے پھر قرآن پاک کو گواہ بناکر اور پھر چند قبائلی عمائدین کے ذریعے آپ کو جنگ بندی پر راضی کیا گیا۔ مگر اس بار یہ دھوکہ صرف قید و بند پر ختم نہیں ہوا بلکہ آپکے ساتھیوں کی شہادت پھانسیوں کی سزاؤں سے ہوئی، جو ریاستی جبر کی انتہاء تھی یعنی 1960ء کی دھائی بلوچ گل زمین پر بھیانک آپریشنوں کا وسیع ذریعہ بنی، آپکو عمر قید کی سزا دے کر اپنے سرمچاروں کی جدائی کے صدمات کو مذید گہرا کردیا۔ ریاست کی جانب سے یہ نہایت سنگدلانہ اقدام تھا اور بھیانک تاریکی کا آغاز تھا۔ جو گل زمین پر استادہ تھا۔ آپ قید و بند میں 90 سال کی بزرگانہ عمر میں جام شہادت نوش کرکے اور بلوچ قومی آزادی کی عظیم علامت بن گئے۔ یہ تھی ریاست کے ساتھ دوسرا شکستہ معاہدہ۔

بابو نواب نوروزخان کے تسلسل کو منظم انداز میں استوار کرنے کیلئے بلوچ قومی سیاست نے سرفیس کو منظم کیا اور بردست مہم کے ساتھ آپکی شہادت کو تحریکی رنگ دیا گیا۔ دوسری جانب مسلح کاذ پر پراری تحریک کا آغاز ہوا اور 1962ء میں جنرل شیر محمد مری نے جدید گوریلا جنگ کی احیاء کی جس نے مری قبیلے کو مستقل طور پر بعد کے آنیوالے سالوں میں ہر اول کردار فراہم کی ۔ پراری گوریلا جنگ 1969ء کی فائر بندی اور ریاست پاکستان کا بلوچ رہنماؤں کے ساتھ مکمل معاہدے کا ذریعہ بنی جو ون یونٹ کے خاتمے اور بلوچستان کی مکمل صوبائی حیثیت کی بحالی کا اعلان تھا۔

عرصہ جنگ 1973 تا 1977

1968ء کا سال عالمی انقلابی تحریکوں کے ابھار کا سال تھا۔ ہند چینی، لاطینی امریکہ، مشرقی وسطیٰ اور شمالی امریکہ میں قومی آزادی اور کلاس اسٹرگل کا ایک وسیع اظہار دیکھنے میں آیا 69 , 1968 میں بلوچ قومی سوال کی بازگشت بیرون ملک مقیم غیر بلوچ دانشوروں کے حلقوں میں بھی سنی گئی ۔ برطانوی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ان غیر بلوچ دانشوروں نے مختلف برطانوی یونیورسٹیوں میں بلوچ قومی سوال پر اجتماعات منعقد کیئے۔ ان کے درمیان رابطے کا ذریعہ شیر محمد مری کی پراری تحریک بنی۔ ان ترقی پسند دانشوران میں ریگس ڈیبرے کے اصول کے تحت گوریلا چھاپہ مار تحریک کی ضرورت مدِ نظر تھی۔ جو اس پورے خطے میں چھاپہ مار تحریک کی نگرانی کرسکیں، اس مقصد کیلئے ان کا نظر انتخاب بلوچ سرمچاروں کی پراری تحریک بنی۔ بابائے بلوچ نواب خیر بخش کی پیشکش نے انہیں بہترین ذریعہ میسر کیا۔ یہ پیشکش جنرل شیر محمد مری کے توسط سے محمد بھابھا نے رابطہ کاربن کر انجام دی۔ لہٰذا فائر بندی کے ایک سال بعد 1970ء میں اس گروپ کے چند ارکان نے چھاپہ مار تحریک میں شمولیت کیلئے بلوچستان کے پہاڑوں میں تیاری شروع کی۔ ان کا گروپ بعد ازاں لندن گروپ کے نام سے مشہور ہوئی ۔ اس گروپ کے ارکان میں احمد رشید، نجم سیٹھی، میر محمد علی تالپر، اسد رحمٰن، راشد رحمٰن، دلیپ جانی داس شامل تھے۔ محمد بھا بھا بنیادی طور پر بین الاقومی گوریلا تحریک کا ممبر تھا، وہ لندن گروپ کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہوا کہ بلوچ وطن ہر قسم کے حالات میں گوریلا جنگ کیلئے پہلے سے تیار ہے۔ کیونکہ ریاستی جبر کی وجہ سے ابتک تین خون آشام جنگوں سے گذر چکی ہے اور فیصلہ کن جنگ اب ضرورت بن چکی ہے۔

فروری 1973ء کا سال فیصلہ کن سال ثابت ہوا، جب زیڈ- اے بھٹو نے فوج کے دستوں کو بے لگام کرکے آپریشن کا آغاز کیا۔ ترقی پسند جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کرکے بلوچ رہنماؤں پر مقدمات قائم کئے گئے۔ 1973ء کے وسط سے ہی بلوچ سرمچاروں نے فوجی دستوں پر تابڑ توڑ حملوں سےتحریک کا آغاز کیا۔ قومی آزادی کی یہ جنگ گذشتہ تین جنگوں سے زیادہ منظّم اور زیادہ خون آشام تھی۔ اس جنگ میں پاکستانی قبضہ گیر فوج نے اپنی ساری طاقت جھونک دی تھی، تقریباّ چار ڈویژن ریگولر آرمی بلوچ سرمچاروں کے مد مقابل تھا، جسے فضائیہ کی کمک بھی حاصل تھی۔ اسی جنگ کے دوران ایرانی حکمرانوں کا بھیانک چہرہ بھی اپنے مکروہ شکل میں دنیانے دیکھا۔ ظالم شاہ ایران نے بھٹو رجیم سے معاہدہ کرکے بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو کچلنے کیلئے 36 کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹرز فراہم کیئے، ان ہیلی کاپٹرز کو ایرانی فضائیہ کے پائلٹ خود آپریٹ کرتے رہے۔

ان تباہ کن ہیلی کاپٹرز نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ پہلے پہل پاکستانی فوج پہاڑوں پر پیشقدمی نہیں کرسکتی تھی۔ مگر بعد ازاں یہ ہیلی کاپٹرز فوج کے آگے آگے بڑھکر گولیوں اور راکٹوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے پہاڑی کمیں گاہوں پر جاتے اور پھر فوج آگے بڑھتی جاتی۔ اس طرح فضائی برتری کی وجہ سے اکثر اوقات سرمچار گھیرے میں آتے تھے، لیکن اس کے باوجود سرمچار بڑی بےجگری سے لڑتے ہوئے گھیراؤ توڑ دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جنگ میں بڑے زبردست معرکے دیکھنے میں آئے۔ اس پر طرہ یہ کہ پاکستانی فضائیہ چینی ساختہ میراج طیاروں کو بھی اس جنگ میں استعمال کررہی تھی۔ یہ جنگ گذشتہ تمام جنگوں سے زیادہ خون آشام تھی اور زیادہ پھیلا ہوا تھا۔

1970 ء کی دھائی کی قومی آزادی جنگ ہر حوالے سے شاندار تحریک تھی، اسی جنگ کے دوران ایک منظم تنظیم بلوچ پیپلز لبریشن فرنٹ کی 1975ء میں تشکیل عمل میں آئی اور اس تنظیم کا ایک ترجمان جریدہ “جبل” کا اجرا ہوا، جس میں بہترین تجزیئے، تبصرے اور کاروائیوں کے بارے میں تحریریں ہوتی تھی، اس کی سائکلوں اسٹائل کاپیاں خفیہ طور پر بلوچستان کے علاوہ سندھ و بیرون ملک بھی بھیجے جاتے تھے۔ یہ جریدہ جنگی ادب کا ایک شاہکار ثابت ہوا، کیونکہ اس زمانے میں میڈیا میں بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے کوئی خبر بھی جرم کے زمرے میں آتا تھا اور میڈیا اتنا ترقی یافتہ بھی نہیں تھا۔ لے دے کر پاکستانی اخبار تھے اور سرکاری کنٹرول کا ایک پسماندہ ٹی وی چینل تھا۔ جسکی نشریات شام 6 بجے سے رات 12 بجے تک تھی، جس میں صرف سرکاری خبریں رات 9 بجے پیش کی جاتی تھی۔ اس زمانے میں سیاسی کارکنوں کےلیئے خبروں کا ذریعہ بی بی سی ریڈیوں سروس تھا۔ مگر اس کی بھی اردو سروس میں بلوچستان کے حوالے سے کبھی کبھار ہی کوئی خبر شائع ہوتی تھی ۔ لہٰذا” جبل” قومی آزادی کی تحریک کا حقیقی اور واحد ترجمان تھا۔

گو کہ یہ عظیم تحریک 1977ء کے اواخر تک اختتام پذیر ہوئی، مگر اس تحریک نے بہترین کیڈر اور رہنما پیدا کیئے، جوکہ بعد کے آنیوالے سالوں میں بہت کچھ واضح کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اسی تحریک کے بعد پارلیمنٹ پرستوں اور حقیقی آزادی پسندوں کی راہیں جدا ہوئیں ۔1977ء کے مارشل لا اور خطے میں ہونیوالے تبدیلیوں نے بھی تحریک پر دور رس اثرات مرتب کیئے۔ اگرچہ تحریک اپنےمقاصد حاصل نہ کرسکی ۔ مگر وسعت پذیر ضرور ہوئی اور سیکھنے کے بہت مواقع ملے۔ جنگ کا خاتمہ ضرور ہوا، مگر ضیاء فوجی رجیم کے معافی کے اعلان کو بہت زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ مارشل لاء کے زمانے میں ہی فوجی ٹروپس بلوچستان سے واپس بلالئے گئے اور نقصانات کے ازالے کیلئے تاوان کی بھی ادائیگی ہوئی، لیکن بلوچ پیپلز لیبریشن فرنٹ کی پوری قیادت مری بلوچوں تقریباّ ہزاروں افراد سرحد پار کرکے افغانستان چلے گئے تھے۔ یہ عمل دوران جنگ اور بعد ازا جنگ وقفوں وقفوں سے ہوا۔ افغانستان میں قیام کے دوران خطے کے حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہوئے۔ شاہِ ایران کا زوال افغانستان میں ثور انقلاب اور اس کے بعد سوویت افواج کی آمد نے تحریک کے بہت سے پرتوں کو گومگو کی کیفیت سے دوچار کیا۔ جسکی وجہ سے بلوچ پیپلز لیبریشن فرنٹ کے رہنماؤں کے درمیان اختلافات پیدا ہو ئے۔ ان اختلافات کی وجہ سے بہت سے بہترین لوگ تحریک سے الگ ہونے پر مجبور ہوئے۔ بہت سے ذہین لوگوں کو تحریک سے زبردستی بھی الگ کردیا گیا۔ ترقی پسند فکر رکھنے والوں کو بھی یہ کہہ کر جدا کردیا گیا کہ اب ان کی گنجائش نہیں ۔ لہٰذا لندن گروپ اور دوسرے ترقی پسند افغانستان سے واپس آگئے اور کچھ دوسرے یورپ چلے گئے۔

اس تمام تر صورتحال نے بعد از بلوچ قومی تحریک پر مختلف اثرات مرتب کیئے۔ بہرحال 1980ء 1990ء کی دھائیاں بلوچ سیاست میں کیفیتی تبدیلیوں کے دور رہے۔ جو پورے پاکستانی ریاست کے مجموعی سیاسی صورتحال کی طرح رہی، لیکن نئے ہزاریئے میں ساری دنیا میں سیاست نے اور حالات نے یکسر پلٹا کھایا۔ 9/11 کے واقع نے ساری دنیا میں ہلچل مچادی، جنگوں کا ایک نیا رجحان سامنے آیا۔ افغانستان, مشرقِ وسطیٰ وغیرہ میں ایسی بھیانک صورتحال پیدا ہوئی، جسکا سلسلہ ہنوز جاری ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔

بلوچ قومی آزادی کی جاری تحریک :۔

بلوچ قومی آزادی کی جاری تحریک گذشتہ تحریکات سے وسیع بلوچ تحریک ہے۔ اس میں یقیناً بہت سی پیچیدگیاں بھی ہیں اور دوسری کمزوریاں بھی ہیں، لیکن ان سب کے باوجود موجودہ تحریک نے بلوچ قومی سوال کو کسی بھی حد تک کم ہی سہی بین الاقوامی سطح پر اجاگر ضرور کی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی بین الاقومی برادری میں اب تک کوئی خاص پذیرائ نہیں دلاسکی ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ تحریک میں قیادت کا واضع فقدان ہے۔ اب تک قومی اداروں کی تشکیل نہیں ہوئی ہے۔ سنجیدہ دانشور حلقوں کی کمی ہے۔ کوئی مکمل ماس پاس پارٹی اور اس کے ذیلی ادارے ناپید ہیں۔ آپسی اتحاد اور اتفاق نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بین الاقوامی حالات کو سمجھنے میں آزادی پسند پارٹیاں اور رہنما ناکام ثابت ہورہے ہیں، اسکی وجہ یہ ہے کہ ان پارٹیوں اور رہنماؤں میں وسیع تر سوچ کا فقدان ہے۔ علاقائی سطح پر اپنے لیئے ہمدرد پیدا کرنے میں بھی زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ فکری اور نظریاتی ہم آہنگی کہیں نظر نہیں آتیں۔

پارٹیاں شخصیتوں کے گرد گھوم رہی ہیں۔ بلوچ معاشرے میں انکی مثبت اور وسیع رول نہیں ہے بلکہ قوم کی شعور وآگہی میں اضافہ نہیں کرپارہے ہیں، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ جتنی جلد ممکن ہوسکے، ایک متفقہ قیادت کے ذریعے ایک وسیع نظریاتی و فکری ماس پارٹی کا قیام عمل لایا جاسکے۔ آپسی اختلافات کو جلد از جلد مثبت فکری حوالوں سے حل کرکے باہم شیروشکر ہوکر بلوچ قومی سوال کو بنیاد بناکر دوسری قوموں میں اپنے لیئے ہمدرد پیدا کرکے اور خطے میں موجود لبرل پارٹیوں اور تنظیموں سے رابطہ استوار رکھ کر اپنے موقف کو سائنسی اور بہترین انداز میں پیش کرسکیں۔ بین الاقومی سطح پر بیرونِ ممالک میں مقیم قائدین و کارکن آپس میں مل بیٹھ کر ایک متفقہ سپریم کونسل تشکیل دیکر اس کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کریں۔ کانفرنس، سیمینارز منعقد کریں۔ تحریک کو مکمل سیاسی انداز سے آگےبڑھائیں۔ خود کو مظلوم اور پرامن ثابت کرکے ہی دنیا کی ہمدردیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ جذباتی نعروں اور مفت کی خوش فہمی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

یہ بات یاد رکھیں کہ ہر چیز اپنے معروضی حالات کے مطابق ہی رونما ہوتے ہیں اور زندگی میں کوئ شارٹ کٹ نہیں ہوتا اور راتوں رات نتائج حاصل نہیں ہوتے اور ہمیشہ یکساں طریقہ کار کامیابی کے ضامن نہیں ہوتے، بلکہ وقت و حالات کے مطابق تبدیلیاں ضروری ہوتی ہیں، سفر طویل بھی ہوجاتاہے، دورانِ سفر اپنا جائزہ بھی لینا ضروری ہوتا ہے کہ جدوجہد میں کیا کھویا اور کیا پایا ؟ اگر طریقہ کار میں تبدیلی لانا ضروری ہوتو بلا خوف و خطر تبدیلی لائی جائے۔ تاکہ جدوجہد جاری رہے یہاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ آفاقی اور سائنسی قول پر اختتام کرتا ہوں ۔” فرماتے ہیں کہ رختِ سفر باندھا ہے تو پھر رُکنا نہیں ورنہ تمہارا اپنا ہی غبارِ راہ تمہیں دبوج لے گا”۔