بلوچ سرزمین کے عظیم فرزند…. شہدائے مرگاپ
تحریر: عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
شہداء کی عزمت اور اہمیت کا حال یہ ہوتا ہے کہ جس قوم کی پشت پر ان کے قربانیوں کی طاقت کا پاکیزہ خزانہ موجود ہوتا ہے، اس قوم کو اللہ کبھی مایوس نہیں کرتا اور جس قوم کے رہنماء سر بکف ہوکر اپنی قوم کو آزادی کی منزل پانے کی جستجو میں پیش پیش ہوں، یہاں تک کہ مقصد کی تحصیل کے لیئے اپنی جانوں کو قربان کرکے ایک مثال قائم کرنےکا حوصلہ رکھتے ہوں، تو یہ طے ہے کہ اس قوم کو دنیا کی کوئی طاقت مسخر نہیں کرسکتا ہے۔ اسلیئے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ستم رسیدہ اہل بلوچستان کو بھی کبھی حالات کی بدلتی ہوئی گردشوں کو دیکھکر مایوس ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، کیوںکہ ان کی پشت پر بھی جہاں لاکھوں پر شباب آزادی کے متوالوں کی شہادت کی قربانیوں کی طاقت موجود ہے، وہاں تحریک آزادی کے رہنماوں کی دی ہوئی جانی قربانیوں کا سرمایہ بھی موجود ہے۔ جن میں شہید واجہ غلام محمد بلوچ ، شہید شیر محمد بلوچ اور شہید لالا منیر بلوچ کا خون شامل ہے.
شہدائے مرگاپ کی قائدانہ صلاحیت و بلوچ عوام کے اندر انکی انتھک محنت و مشقت کا یہ ثمر ہے کہ آج بلوچستان کے کونے کونے پر شمعِ انقلاب و آجوئی گُل ہونے کا نام نہیں لیتا، یقیناً آج کا دن بلوچ قوم کے لیئے ان طوفانی و تباہ کن سمیت سیاہ راتوں سے کم نہیں کہ اسی دن ریاست کے خون خوار درندوں، بلوچ قومی آزادی کے سرخیل قیادت کو عقوبت خانوں کے نذر کیا لیکن ریاستی ادارے اُس وقت یہ بھول چکے تھے کہ شہدائے مرگاپ کے مبارک ہاتھوں، جس آجوئی کے درخت کی آبیاری کی گئی تھی، وہ تناور درخت کی مانند ان کے شہادت کے بعد اب بھی کھڑا ہے بلکہ اس سے زیادہ مضبوط و منظم شاخیں ابھر کر سامنے آچکی ہیں۔ جنہوں نے ریاست سمیت اُنکے اداروں کی راتوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں.
عزم و حوصلے کا پیکر شہید قائد واجہ غلام محمد بلوچ اور ان کی ساتھیوں کی شہادت سے بلوچ قومی تحریک پر منفی اثرات تو نہیں پڑے لیکن ان کی رہنمائی و بے باک جرات سے یقیناً بلوچ تاریخ محروم رہا ہے. آج کے اس پیچیدہ دور میں جہاں اپنوں کی بے رخی و خود غرضی کی وجہ سے معاملات نے سنگین شکل اختیار کیا ہے لیکن اس کا قطعاً یہ مقصد نہیں جس درخت کی آبیاری شہید غلام محمد بلوچ، ان کی ساتھیوں سمیت لاکھوں شہیدوں نے کی تھی، وہ کبھی کمزور ہوگا.لیکن ہاں آج ہمیں آپسی اعتماد، یگانگت اور اخوت کا مظاہرہ کرنا ہوگا، جو ان شہداء کے تئیں ہمارا سب سے بہتر خراج عقیدت ہوگا ورنہ اس بات کا احتمال ہے کہ کہیں کل کو ان شہداء کے سامنے شرمندگی کا احساس نہ کرنا پڑے.
آج کی اس کٹھن دور میں ریاست انتہائی تیزی سے اپنی حکمت عملیوں کو بدل کر اُن میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کررہا ہے، صرف اس لیئے کہ شہید واجہ غلام محمد کی شہادت کے بعد سیاسی حوالے سے جس انتشار کی ابتداء ہوئی اس کا جو پیدا شدہ خلاہ ہے، وہ پُر نہ ہو لیکن اگر ہمیں من حیث القوم یہ احساس ہے کہ بلوچ شہداء کی قربانیاں اور ان کی خون سے بنائی گئی، درخت کی کمزور ہونے کا فکر ہے تو یہ ہمارا اولین فرض ہے کہ ہم شہداء کی دی ہوئی درونت اور شہید واجہ غلام محمد بلوچ کے فلسفے کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا، جنہوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کس وقت وہ کاہان ڈیرہ بگٹی میں ہیں، کس وقت خضدار و مشکے میں ہیں، کس وقت کراچی و مند میں ہیں، اُن کے جینے کا مقصد تحریک تھی اور انہوں نے اس تحریک کو صحیح روح بخشی.
بلوچ قومی تحریک کی موجودہ منتشر حالت یقیناً شہید قائد غلام محمد بلوچ اور لاکھوں شہداء کی روحوں کو تکلیف دے رہی ہے لیکن یہ ہماری احساس ہونی چاہیئے کہ شہیداء کا فلسفہ اُس وقت تر و تازہ ہوگا، جب ہم بکھری اُن شاخوں کو اکھٹے کرکے اس منزل کی طرف بڑھیں گے، جن کو شہید قائد سمیت تمام شہدائے آجوئی نے ہمیں دکھایا۔ اتحاد و اتفاق ہی شہداء کی قربانیوں کا بہترخراج ہے۔
“اٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے”
میرے الفاظ کیا ہر شعر کا مضمون جلتا ہے
میں جس دم سوچنے لگتا ہوں میرا خون جلتا ہے
اٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے
کچل ڈالو ہر اک فتنہ ستم کا، سربریت کا
اٹھو اور توڑ ڈالو ہاتھ ہر اہلِ اذیت کا
اگر کچھ حریت کا جوش ہے جذبہ حمیت کا