چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے بلوچستان میں پانی، تعلیم اور صحت کے شعبے کی بدحالی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ سندھ کی حالت ابتر ہے، بلوچستان کے حالات تو اور بھی خراب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں سب سے زیادہ پیسے بلوچستان کو ملے، اتنے پسماندہ صوبے کے پیسے کون کھا گیاہے، بلوچستان میں کوئی گورننس ہی نہیں ہے،غیر حاضر اساتذہ بچوں کیساتھ ظلم کررہے ہیں، تعلیم اور صحت میں سیاست قبول نہیں، ضرورت ہوئی تو ان محکموں میں ٹریڈ یونین پر بھی پابندی لگادینگے، بلوچستان میں تعلیم سے متعلق پالیسی مرتب کرکے 15دنوں میں رپورٹ دی جائے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں بلوچستان میں صحت ،تعلیم اور پانی کے مسائل پر ازخود نوٹس کیس کی منگل کو دوسرے روز بھی سماعت کی۔ عدالت نے سابق وزراء اعلیٰ عبدالمالک بلوچ اور ثناء اللہ زہری کو طلب کر رکھا تھا۔ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس سپریم کورٹ نے پوچھا کہ سابق وزراء اعلیٰ کہاں ہیں۔
وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی جانب سے ان کے وکیل عامر رانا ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ مالک بلوچ شہر سے باہر ہیں۔ ثناء اللہ زہری خود پیش ہوئے اور نہ ہی عدالت میں ان کا کوئی نمائندہ آیا۔ عدالت نے دونوں سابق وزراء اعلیٰ کو 30اپریل کو دوبارہ اسلام آباد طلب کیا۔ عدالت نے حکم دیا تھا کہ چار سالوں تک بلوچستان میں حکومت کرنیوالے بتائیں کہ انہوں نے پانی، صحت اور تعلیم کے شعبے میں کیا کیا۔
سماعت کے دوران ینگ ڈاکٹرز کے معاملے پر چیف جسٹس نے سیکریٹری صحت بلوچستان صالح ناصر سے پوچھا کہ ینگ ڈاکٹرز کو اب تک تنخواہیں کیوں ادا نہیں کی گئیں۔ ینگ ڈاکٹرز کو24ہزار روپے تنخواہ ادا کی جارہی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے ڈرائیور کی تنخواہ بھی35ہزار روپے ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک ان ڈاکٹروں کی تنخواہ ادانہیں کی جاتی آپ کی تنخواہ بند رہے گی۔ ہاؤس جاب کرنے والے ڈاکٹروں کو ایک ہفتہ میں تنخواہیں ادا کی جائیں اور ینگ ڈاکٹروں کے جائز مطالبات پورے کیئے جائیں۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت ناصر کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ سول ہسپتال میں ایک بھی ایم آرآئی مشین نہیں۔ عدالت آپ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔
چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری بلوچستان اورنگزیب حق کو مخاطب کیا اور کہا کہ سیکرٹری صحت کا کہیں اور تبادلہ کردیں۔ تعلیم کی صورتحال پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسکولوں سے باہر بچوں کیلئے کیا کیا جارہا ہے۔ سیکریٹری تعلیم نور الحق بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ تین سالوں میں بلوچستان کے چار لاکھ بچوں کو اسکولوں میں داخلے دلوائے گئے ۔
ہمیں2400نئے اسکول چاہیے جن کیلئے تین ارب روپے سے زائد درکار ہیں۔ صوبے کے 11ہزار سے زائد پرائمری اسکولوں میں سے صرف4ہزار کی چاردیواری موجود جبکہ صرف1700میں بجلی دستیاب ہے۔ تعلیم کا ترقیاتی فنڈز صرف نو ارب روپے ہے جو ناکافی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ جب تک موجودہ اسکولوں کی حالت بہتر نہیں بنائی جاتی اس وقت تک نئے اسکولوں کوبنانے کی ضرورت نہیں ۔سیکریٹری تعلیم نے کہا کہ اسکولوں کی رئیل ٹائم مانیٹرنگ کا نآم وجود ہے ہم نے غیر حاضر اساتذہ کی تنخواہوں سے53ملین روپے کٹوتی کی ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے چیف سیکریٹری اور سیکریٹری تعلیم سے پوچھا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ کتنے عرصے میں باقی سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر بنائی جائے گی۔
سیکریٹری تعلیم نے کہا کہ فنڈز کی کمی کے مسائل درپیش ہیں ، فنڈز مل جائیں تو فوری طور پر اسکولوں میں بنیادی سہولیات فراہم کردی جائیں گی۔ چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری بلوچستان اورنگزیب حق کو کہا کہ آپ نے اور حکومت نے سہولیات دینی ہے ۔مالی وسائل کو دیکھیں گے تو بنیادی حقوق کی فراہمی نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ فنڈز کس نے دینے ہیں۔
سیکریٹری تعلیم نے کہا کہ محکمہ ترقی و منصوبہ بندی اور محکمہ خزانہ نے ۔ عدالت نے پوچھا کہ یہ محکمے کس حکومت کے پاس ہیں۔ سیکریٹری تعلیم نے کہا کہ یہ بلوچستان حکومت کے محکمے ہیں ۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک صوبے کے محکموں کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ،ا گر وہ پیسے نہیں دیتے تو یہ کس کی ناکامی ہے۔بلوچستان میں گورننس نہیں ہے۔ کسی کی کوئی تیاری نہیں صرف زبانی جمع خرچ ہے ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اسکولوں کی بہتری کیلئے کیا کوئی منصوبہ موجود ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری نصیب اللہ بازئی نے کہا کہ جی منصوبہ موجود ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بتائیں کیا منصوبہ ہے ۔ نصیب اللہ بازئی نے کہا کہ انہیں زبانی یاد نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے پورا دیوانی ضابطہ قانون یاد ہے تو آپ کو پلان کیوں یاد نہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ کوئی گراؤنڈ ورک تو ہے نہیں ۔
چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری کو مخاطب کیا کہ یہ بلوچستان حکومت کی ناکامی ہے ، آپ ہی حکومت ہے اگر پیسے نہیں مل رہے تو پھر حکومت ہی ذمہ دار ہے ۔ایڈیشنل چیف سیکریٹری نصیب اللہ بازئی نے عدالت کو بتایا کہ ایک ارب روپے ہر سال 100سکولوں کی حالت بہتر بنانے پر خرچ کئے جاتے ہیں یہ منصوبہ دس سال تک چلایا جائیگا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چھ ہزار سکولوں میں سہولیات نہیں اور آپ ہر سال صرف سو سکولوں کو سہولیات دینگے یہ منصوبہ تو ساٹھ سالوں میں بھی مکمل نہیں ہوگا،اتنا طویل مدتی منصوبہ ؟۔بلوچستان ہائی کورٹ بار کے سابق صدر ایڈووکیٹ نصیب اللہ ترین نے بیورو کریسی پر تنقید کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ یہ صرف کوئٹہ کو ہی پورا بلوچستان سمجھتے ہیں ۔ صوبے کے باقی علاقوں کی حالت ابتر ہے، سرکاری اسکولوں کی عمارتوں پر قبضے کئے گئے ہیں۔
چیف سیکریٹری یہاں موجود ہیں اور جوابات کوئی اور دے رہا ہے ، چیف سیکریٹری بجٹ اور باقی چیزوں کا پتہ ہی نہیں ہے۔ جسٹس منصور علی خان نے کہا کہ بلوچستان میں تعلیم کی صورتحال بہتر خطرناک ہے ۔چیف جسٹس نے ایڈیشنل سیکرٹری نصیب اللہ بازئی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کچھ زیادہ ہی چالاک آدمی ہیں آپ بتائیے کیا کیا جائے۔
اس موقع پر سیکرٹری تعلیم نے عدالت کو بتایا کہ صوبے میں سرکاری سکولوں کی صورتحال انتہائی خراب ہے لیکن اتنی بھی نہیں ۔کچھ اچھا کام بھی ہورہا ہے۔چیف جسٹس نے سیکرٹری تعلیم کو کہا کہ آپ مجھے بہترین سکول میں لے جائیں۔سیکرٹری تعلیم نے عدالت کو بتایا کہ خضدار کے علاقے کٹھان اور نال کا گزشتہ دنوں دورہ کیا وہاں کم وسائل کے باوجود بہترین اسکول موجود ہیں۔کوئٹہ کے سنڈیمن ہائی اسکول کی کارکردگی بہت اچھی ہے۔
بلوچستان میں فنڈز کی کمی سے زیادہ تعلیم کے شعبے میں اساتذہ رکاوٹ ہیں۔ جہاں اساتذہ اچھے اور قابل ہیں اور اچھا کام کررہے ہیں وہاں سہولیات نہ ہونے کے باوجود اچھے نتائج مل رہے ہیں۔غیر حاضر اساتذہ معاشرے کے دشمن ہیں۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ میں لکھا گیا کہ غیر حاضر اساتذہ تعلیم کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ غیر حاضر اساتذہ کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو اساتذہ تنظیمیں ہڑتال پر چلی جاتی ہیں۔ اساتذہ یونین سیاسی ونگز بن گئے ہیں جنہوں نے محکمے کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ غیر حاضر اساتذہ کے خلاف کارروائی پر میرے خلاف اسمبلی میں قرارداد لائی گئی۔ میرے پاس غیر حاضر اساتذہ کے خلاف سارا پلان ہے لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ میرا تبادلہ دو ماہ کے اندر نہ کردیا جائے۔
بلوچستان میں جے وی ٹیچرز 20 گریڈ تک پہنچا جاتا ہے لیکن کارکردگی صفر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں1980اور1990ء میں سہولیات آج کے مقابلے میں بہت کم تھیں لیکن اس وقت کے اساتذہ بچوں پر محنت کرتے ہیں اور ہمیں 1980ء کا تعلیمی معیار چاہیے ۔
عدالت نے پوچھا کہ غیر حاضر اساتذہ کی پشت پناہی کون کرتا ہے۔ سیکریٹری جواب دیا کہ اساتذہ یونین ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اساتذہ تنظیم کا کوئی نمائندہ عدالت میں موجود ہے تو گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے سابق صدر مجیب اللہ غرشین پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ سکولوں کی عمارتوں پر قبضے ہو رہے ہیں حکومت خاموش ہے ہم غیر حاضر اساتذہ کے حق میں نہیں ہے یہاں جونیئرز سینئرز کی جگہ آتے ہیں ، گریڈ 17گریڈ 19کی پوسٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔
حکومت سیاسی مداخلت ختم نہیں کر رہی جس کی وجہ سے معاملہ بگڑ رہا ہے ۔جسٹس منصور علی شاہ کے استفسار پر مجیب اللہ غرشین نے کہا کہ وہ گورنمنٹ اسکول پرنس روڈ میں پڑھاتے ہیں تو جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پھر آپ یہاں کیا کررہے ہیں، بچوں کو کون پڑھائے گا۔
چیف جسٹس نے مجیب اللہ غرشین کی سرزنش کر تے ہوئے پوچھا کہ آپ کس جماعت کو اور کیا پڑھاتے ہیں۔ مجیب اللہ غرشین نے بتایا کہ وہ نویں جماعت کو اردو اور مطالعہ پاکستان پڑھاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے اردو اور مطالعہ پاکستان کے کتابوں میں مضامین کی تعداد اور مصنفین کا پوچھا تو مجیب اللہ غرشین جواب نہ دے سکے جس پر چیف جسٹس نے غم و غصے کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ نے بچوں کو کل اور پرسوں کیا پڑھایا ؟۔ سرکاری استاد نے جواب دیا کہ کل کچھ نہیں پڑھایااور پرسوں چھٹی پر تھاتو جسٹس ثاقب نثار نے شدید برہم ہوئے اور کہا کہ کیاایسے ہوتے ہیں اساتذہ ؟۔
سب سے بڑا مسئلہ اساتذہ کا ہے جب تک استاد انسان کا بچہ نہیں ہوگا بچے آگے کیا پڑھیں گے۔بعض ملکوں میں جب جنگیں ہوئیں تو اساتذہ کے عزت و احترام کا عالم یہ تھا کہ اعلان کیا جاتا تھا کہ استاد کے گھر پناہ لینے والے کو امان حاصل ہے۔ اساتذہ تو وہ تھے اور یہاں اساتذہ بچوں کے ساتھ یہ ظلم کررہے ہیں ۔
چیف جسٹس نے مجیب اللہ غرشین کو کہا کہ اپنی لیڈری کہیں اور دکھائیں ،جاؤجاکربچوں کو پڑھاؤ،تعلیم اور صحت کے شعبے میں کوئی سیاست قبول نہیں ہے، ان دونوں شعبوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے ،ایسا نہ ہو کہ سپریم کورٹ ان دونوں محکموں میں ٹریڈ یونین پر ہی پابندی لگادے۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری تعلیم کو مخاطب کیا اور حکم دیا کہ مجیب اللہ غرشین کا تبادلہ خضدار کردیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ضروری نہیں کہ سینئر آفیسران کو ہی انتظامی عہدوں پر لگایا جائے ،اگر کوئی آفیسر سینئر ہے اور قابل ہے تو بے شک تعینات کریں لیکن اگر سینئر ہے اور کوئی قابلیت نہیں تو انہیں عہدہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں ، جونیئر اور اچھے قابل آفیسر کو لگانا اس سے بہتر ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ تعلیم سے متعلق پالیسی مرتب کر کے15 دن میں رپورٹ دی جائے ۔
چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری بلوچستان اورنگزیب حق کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ این ایف سی ایوارڈ کے سب سے زیادہ پیسے بلوچستان کو ملے ۔بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے پیسے کون کھا گیا ہے ،صوبے میں کوئی گورننس نہیں ہے ۔
میں تو سمجھتا تھا سندھ کی صورتحال ابتر ہے یہاں تو حالات اور بھی خراب ہیں۔ دریں اثناء چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس میاں ثاقب نآر نے ملک کے سرکاری میڈیکل کالجز میں مجموعی طور پر بلوچستان کے100طلباء کا کوٹہ بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ہفتے کے اندر پسماندہ صوبے کے طلباء کو داخلے دے کر رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے ۔
منگل کو سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں بلوچستان کے مسائل پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کو بتایا گیا کہ بلوچستان اور فاٹا کی پسماندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ملک کے50سرکاری میڈیکل کالجز میں اسکالر شپ پر تین تین طالب علم فی کالج کوٹہ مقرر کیا تھا ۔ اس طرح بلوچستان کے100اورفاٹا کے50طلباء کو ان میڈیکل کالجز میں داخلہ ملنا تھا لیکن میڈیکل کالجز کی جانب سے طلباء کو داخلہ نہیں دیا جارہا۔
چیف جسٹس کے استفسار پر پی ایم ڈی سی حکام نے عدالت کو بتایا کہ میڈیکل کالجز کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حکومت بلوچستان کی جانب سے طلباء کے داخلے مقررہ وقت سے تاخیر سے بجھوائے گئے اس لئے ان طلباء کو داخلہ نہیں دیا گیا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ تو حکومت کی نااہلی ہے کہ طلباء کے داخلے بروقت نہیں بجھوائے گئے لیکن حکومت کی نا اہلی کی سزا طلباء کو کیوں دی جارہی ہے ۔ چیف جسٹس نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو حکم دیا کہ بلوچستان کے 100طلبہ کے ملک کے سرکاری میڈیکل کالجز میں کوٹہ بحال کرکے فوری طور پر انہیں داخلہ دیا جائے اور ایک ہفتے کے اندر عدالت میں رپورٹ جمع کرائی جائے۔