ایک بلوچ فرزند کی چیخ و پُکار – ظفر بلوچ

821

ایک بلوچ فرزند کی چیخ و پُکار

تحریر: ظفر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم 

میرے ابا نے بڑی مشکل سے مجھے پالا ہے، پیدائش سے لیکر جوانی تک قسم قسم کے تکالیف برداشت کی تھیں، آج یہ میرا ذمہ داری بنتا ہے کہ میں اپنے والدین کی خدمت کروں، جنہوں نے میرا پرورش کرتے ہوئے مجھے انسان بنایا اور انسان بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے جیسا ایک ذمہ دار والد بنایا، آج کل میرے لاڈلے بچے، چھوٹے بہن اور بھائی میرے واپسی کا منتظر ہیں۔

والدین کو یہ گمان تک نہیں تھا کہ یہ بچہ بڑا ہوکر میرے خوشیوں کو ایک بار پھر ایک اندوہناک غم میں مبتلا کرسکتا ہے، مجھ جیسے کئی نوجوانون کی مسخ شُدہ لاشیں مقبوضہ بلوچستان کے جنگل و بیابانوں یا اجتماعی قبروں کی صورت میں ملے ہیں۔

میرے فیملی کی طرح آج ہر بلوچ کی گھر میں ماتم ہے، گھر والے ماتم پرسی کے بجائے اپنے پیاروں کے مسخ شدہ لاشوں پر فخر کرتے ہوئے بلوچی نازینک کے ساتھ اپنے حقیقی مادرِ گلزمین کی آغوش میں دائمی خواب سلاتے ہیں۔

آج میں اُس بلوچ فرزند کی نام چند الفاظ لکھنے کی جدوجہد کر رہا ہوں، جسکا تعلق پسماندہ ضلع آواران کے تحصیل جہل جھاو کے گاؤں (کوٹو) سے تھا۔ جس کا نام محمد رفیق ہے، رفیق جھاؤ کوٹو میں روزی بلوچ کے گھر آنکھیں کھولتا ہے، روزی بلوچ کا کہنا ہے کہ میں نے بڑی مشکل سے اپنی بچوں کی پرورش کی تھی، بہ وجہِ غربت آج تک بحالتِ عاجزی متحدہ عرب عمارت میں مزدوری کرتے ہوئے بڑے مشکل سے گھر کا گذر بسر کررہا تھاـ

جب 20 مئی 2016 کو پاکستانی سیکورٹی فورسسز نے درجن بھر گاڑیوں اور لاولشکر کے ساتھ میرے گھر کے چراغ محمد رفیق کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے، تو مغوی کی بے بس فیملی نے اپنے فرزند کی بازیانی کیلئے ہر در کو کھٹکھٹاتے رہے لیکن کسی نے اُس لاچار و مسکین فیملی کی آہ و فریاد کو نہیں سُنا، والد صاحب جو کے دبئی میں تھے مزدوری کررہے تھے، اپنا کام چھوڑتے ہوئے واپس پاکستان آیا، تاکہ اپنے فرزند کی بازیانی کیلئے زبردست تگ و دو کرسکے، لیکن وہ بھی مایوسی کے ساتھ دوبار دبئی چلے گئےـ لیکن فیملی والوں کو صرف یہ اُمید تھی کہ ضرور انکا جوان سال رفیق جان بازیاب ہوکر گھر کی تاریکی کو روشنی میں تبدیل کریگا۔

ساری امیدیں اسوقت نا امیدی کے نظر ہوگئے، جب 20 فروری 2018 کے عٰلی الصبح سوشل میڈیا میں ایک خبر گردش کرنے لگی کہ ڈسٹرکٹ لسبیلہ کے صنعتی شہر حب چوکی کے نواحی علاقے ساکران کے جنگل میں ایک مسخ شدہ لاش پڑی ملی ہے، جو کہ نا قابلِ شُناخت ہےـ تو اسیران اہلخانوں میں سے ہر ایک کا کوشش تھا کہ وہ جاہِ وقوع تک پہنچ جائے، کہیں لاش ان میں سے کسی کے لخت جگر کا نا ہو۔

اُن اسیرانِ کی فیملی کے پہنچنے سے قبل ریاستی پولیس جاہِ وقوع پر پہنچتے ہوئے لاش کو اپنے تحویل لیکر، دفتری تحقیق کے بعد لاش کو جام غلام قادر سول اسپتال کے مردہ خانے میں رکھ دیتا ہے۔ بہت سے اسیران کے اہلخانہ جام قادر سول اسپتال پہنچ کر لاش کی شناخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ـ ان اسیران کے اہلخانوں میں سے ایک خاندان اپنے لختِ جگر کا پہنچان کرلیتے ہیں، وہ لاپتہ رفیق بلوچ کی فیملی والے ہوتے ہیں۔ 2سال 9 مہینے رفیق کا منتظر رہنے کا بعد آخرکار رفیق انہیں مردہ حالت میں مِل ہی جاتا ہےـ

شہید کی فیملی نے لاش کی شناخت کی، لاش سیکورٹی فورسسز کی درندگی کی وجہ سے مکمل ناکارہ تھی، لاش کی تصویر خود اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ایک بے بس انسان کے ساتھ انسانیت کے دعویداروں نے کتنے درندگی کا مظاھرہ کیا ہے۔ پورے جسم کی چیڑ پھاڑ کرتے ہوئے، جسم کے تمام اعضا کو نکالنے کے بعد، دوبارہ لاش کو سوئی و دھاگے کی مدد سے سیا گیا ہے۔ لاش پر موجود سلائی کی نشانات بھی عیاں ہے۔

اس لاش کی تصویر کو دیکھنے کے بعد یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ شہید رفیق کی طرح دیگر لاپتہ بلوچ اسیران کے ساتھ ان جیسا عمل نہ ہو تا ہو، اب پاکستانی ریاستی فورسسز قصائی بنتے ہوئے، انسانی اعضاء کی خرید و فروخت کرنے میں کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ جو لاپتہ بلوچوں کے اعضاء نکال کر اب فروخت کررہے ہیں۔