انیس علاقوں میں آپریشن، 87 لاپتہ و 30ماورائے عدالت قتل، بی ایچ آر او رپورٹ

190

بلوچ ہیومن رائیٹس آرگنائزیشن نے اپنے جاری کردہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بہت تشویشناک ہے۔ سیکورٹی فورسز نے مارچ کے مہینے میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سے87 لوگوں کو جبری طور پر اغواء کر کے لاپتہ کردیا ہے۔جبکہ اسی مہینے بلوچستان کے 19علاقوں میں آپریشن کے دوران 30لوگوں کو ماروائے عدالت قتل کیا گیا، جبکہ اسی مہینے 71لاپتہ افراد بازیاب بھی ہوئے جن میں اکثریت کو 2015/2016 میں لاپتہ کیا گیا تھا ۔

مارچ کے مہینے میں قتل ہونے والوں میں مہر علی بلوچ بھی شامل ہے جو آواران بلوچستان کا رہائشی ہے جو انسانی حقوق کے خراب صورتحال کے باعث اپنے آبائی علاقے آواران سے کراچی منتقل ہو گئے تھے۔

مہر علی بلوچ کو سندھ رینجرز نے 14نومبر 2016ء کو کراچی لیاری سے گرفتار کے کے لاپتہ کردیا تھا، جبکہ 13مارچ 2018ء کو لیاری کراچی میں ان کو دیگر تین بلوچ نوجوانوں کے ہمراہ جعلی مقابلے میں ماورائے عدالت قتل کیا۔
جعلی مقابلے میں قتل کیے جانے والوں میں مہر علی بخش، اس کے بھائی عمیر علی بخش اور ذہنی مریض چاکر بلوچ شامل تھے۔ مہر علی بخش اور عمیر علی بخش دونوں بھائیوں کو سندھ رینجرز نے2اگست2017ء کو کراچی ملیر میں ان کے گھر سے گرفتار کر کے لاپتہ کر دیا تھا۔
24

مارچ کو ضلع واشک کے علاقے سولیر میں فوجی آپریشن میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ سے غلام قادر اور اکرم محمد عیسیٰ قتل ہوئے اور اسی مہینے 2مسخ شدہ لاشیں بھی برآمد ہوئیں۔

ہوشاپ اور کولواہ کے علاقوں میں آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز نے درجنوں گھروں کو نذر آتش کر دیا، جبکہ ذکری فرقے کے دو عبادت گاہوں کو بھی نذر آتش کر دیا۔ واضح رہے کہ ذکری فرقے کے لوگ ہمیشہ ریاستی فورسز کے نشانے پر ہوتے ہیں۔

بلوچ ہیومن رائیٹس آرگنائزیشن نے کہا کہ ریاستی سیکورٹی فورسز گزشتہ کئی سالوں سے بلوچستان میں لوگوں کو ماورائے عدالت گرفتار ر اور قتل کر رہے ہیں ۔ لوگوں کو گرفتار کر کے تشدد کے بعد قتل کرنے جیسے جرائم میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اگر چہ میڈیا بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی پامالیوں پر مکمل خاموش ہے جبکہ پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی انسانی حقوق کے پامالیوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔

بلوچستان میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کی روک تھام کے لیئے پارلیمنٹرین اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں بحث کریں جبکہ عدلیہ ، حکومت ، میڈیا ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ ریاستی سیکورٹی فورسز پر دباؤ ڈالیں۔