افسانہ: ماں اور درخت – شیراک بلوچ

548

 ماں اور درخت

تحریر : شیراک بلوچ

دی بوچستان پوسٹ : افسانہ

ماں روزانہ گاؤں سے ایک آدھ میل کے دوری پر ایک کنوئیں سے پانی کے خواہ (مشکیزے) بھر کر گدھے پر لاد کر گھر لے آتی تھی، یہ روزانہ کا معمول تھا. میں بھی اپنے عمر کے پانچویں سال میں ہی داخل ہوا تھا. میں نے ابھی اچھے سے بولنا شروع کیا تھا، صبح ہوتی تو ماں کہتی میرجان چلو پانی لاتے ہیں اور میری چھوٹی بہن جو ایک سال کی تھی، اسے بھی ماں ساتھ میں لے کر اس کنوئیں پر لے کر جاتی. ماں مشکیزہ بھر کر گدھے پر لاد کر مجھے اوپر بٹھا کر خود پیدل چلتی۔ روزانہ ہم راستے میں ایک درخت کے نیچے تھوڑی دیر کیلئے آرام کرتے، پھر میں اور میری چھوٹی بہن اس درخت کے نیچے کھیلنے میں مشغول ہوتے۔

پتہ نہیں ماں روزانہ اس درخت سے کیا باتیں کرتی رہتی تھی. ایک دن جب ماں اس درخت کے نیچے اس کے تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور میں یہ سننا چاہتا تھا کہ آخر ماں ایسی کیا باتیں کرتی ہے اس درخت سے، تو میں ماں کے گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد کچھ آوازیں سنائی دینے لگیں، جیسے کوئی کسی کو پکار کر ڈھیر ساری باتیں کرنا چاہتا ہو، اپنے اوپر گذرے غم و الم بیان کرنا چاہتا ہو، تو میرا دھیان اسی طرف ہونے لگا۔

درخت لب کشائی کرتے ہوئے کہنے لگا: ” ایک ماں تُو ہے اور ایک میں، میرا بھی سب کچھ اسی دھرتی سے وابستہ ہے اور تیرا بھی سب کچھ اس دھرتی سے۔ مجھے معلوم ہے تُو یہاں آرام کرنے نہیں بلکہ اپنے لخت جگر کے یادوں کو تازہ کرنے آتی ہے، وہ دن میں بھی نہیں بھول سکتا اور تم بھی بھلا نہ پاؤ گی، مجھے اب بھی یاد ہے کہ تیرے لخت جگر نے کس بہادری سے مقابلہ کیا اور اس دن تیرے ہی لخت جگر کے خون سے یہ دھرتی اور میری جڑیں سیراب ہوئیں تھیں، تیرے لخت جگر نے کیسے میرے تَن سے اپنے پِیٹ کو زور سے لگایا ہوا تھا کہ دشمن کا مقابلہ سامنے سے کروں تاکہ پیٹ دیکھانے کا موقع نا ملے، اور میں گواہ ہوں اُس وقت کا، جس وقت تیرے بہادر لال نے بہادری سے مقابلہ کیا، میں اس وقت اسی سوچ میں تھا کہ کاش، کاش میں تیرے لال کا کوئی مدد کر سکتا. بس اتنا کر سکا کہ اس کی طرف بڑھنے والی کچھ گولیاں میں نے اپنے سینے میں روک دیئے۔”

ماں خاموشی سے درخت کو سننے کے بعد آہستگی سے بولنے لگی: ” تو خود ان موسموں کا مقابلہ کرتی ہے، موسم سرما میں تیرے سارے پتے جھڑ جاتے ہیں اور تو اس امید سے ہوتا ہے کہ بہار آئے گی پھر پتے اگیں گے، پھر پھول لگیں گے، ان میں سے ننھے ننھے پھل نکلیں گے اور اچانک ایک سرد ہوا دوبارہ سے آتی ہے اور ان میں سے کچھ گر جائیں گے، کچھ مرجھا جائیں گے، اور کچھ کو تو نظروں میں جمائے کیڑے کھاجائیں گے اور جو بچ جائیں گے وہی تیرے پیار کو دیکھ سکیں گے۔”

ماں کی بات سننے کے بعد درخت بولا: ” بالکل تیرا درد میرا درد ایک ہی ہے، تو نے بھی اپنے لخت جگر کو 9 مہینے اپنے کوکھ میں پالا، پھر جنم کے بعد بیماریوں سے لڑتی رہی، رات بھر خود تو سو نہ پائی لیکن اپنے لخت جگر کو سلانے کی ہر ممکن کوشش کی نا سردی دیکھی نا گرمی بس اسی کا خیال ہی کرتی گئی اور جب جوان ہوا، تو اسے مادر وطن کیلئے قربان کر دیا، مجھے اب بھی یاد ہے تو اور تیرا لخت جگر یہیں پہ ملنے آتے، تو اپنے بیٹے کے کاندھوں پر بندوق دیکھ کر خوش ہوا کرتی، اسے دعائیں دیتی، اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی، اپنے گود میں مادر وطن کی لوریاں سناتی، اور کہتی کہ ماں کے دودھ کا قرض نبھانا، پر ایک دن کیا ہوا کہ تیرا بیٹا، تیرا منتظر تیری راہ دیکھ رہا تھا، میری شاخیں اونچی تھیں، میں تو دور دور تک سب دیکھ سکتا تھا کہ تُو بھی اپنے لخت جگر سے ملنے آرہی ہے لیکن تجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ تیرے پیچھے بھی کوئی ہے۔اگر تجھے پتہ ہوتا تو کہیں اور جاتی، مگر اس دن اپنے لخت جگر سے ملنے نا آتی، تو مگن تھا کہ مجھے اپنے جگر کے ٹکڑے سے ملنا ہے، پر تجھے کیا پتہ کہ آج تو آخری بار ملے گی۔

بس تیرے لخت جگر نے کیا دیکھا کہ ماں آ رہی ہے دور ہی ایک لکیر کی مانند مٹی بھی ہوا میں اڑتی آرہی تھی. بس تیرے لخت جگر نے وہ ہمت پائی تھی کہ اب مرنا ہے یا مارنا ہے، وطن یا کفن، بندوق سے نشانہ باندھا اور گاڑی پر مشین گن سنھبالے دشمن کو مار گرایا اور اچانک سے گاڑیاں رک گئیں، کچھ بھاگنے لگے، کچھ مورچہ زن ہوئے، تیرے بیٹے نے کئی دشمن مار ڈالے، تُو تو اپنے لخت جگر کو ہی دیکھتی گئی، اس کے بہادری میں تجھے تو اور کچھ دکھائی نہیں دے رہی تھی، توُ تو اس بات پہ پریشان تھی کہ خوشی مناوں یا غم، خوشی اس لیئے کہ تیرا لال تیرے دودھ کا قرض نبھا رہا ہے، اور غم اس بات کا کہ میرا لال آج مجھ سے جسمانی طور سے جدا ہو جائے گا۔

بس تیرے لخت جگر نے سینے پر گولیاں کھائیں اور تیرا گود ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا، پَر تیرے چہرے پر کوئی شکن نا آیا، اور تُو نا سہی لیکن اسے دوسرے مادر وطن نے تو اپنے گود میں سلایا ہے اور ایک تو ہی ہے جو اپنے دوسرے بیٹے کو بھی اسی راہ سے روزانہ لاتی ہے اور اسے بھی یہی درس دیتی ہے کہ میرے دودھ کا قرض نبھانا۔