پاکستان کے مختلف شہروں میں پشتون تحفظ موومنٹ کے زیرانتظام احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ کئی ہفتوں سے جاری ہے اور اس احتجاج کے ایک مرکزی رہنما منظور احمد پشتین نے کہا ہےکہ اُن کی جدوجہد پرامن ہے جو جاری رہی گی۔
واضح رہے کہ مبینہ ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے خلاف اور مساوی حقوق کے لیے جاری احتجاج کے سلسلے میں جب بلوچستان میں جلسوں کا سلسلہ شروع ہوا تو پشتون تحفظ موومنٹ کے مرکزی راہنما منظور پشتین سمیت کئی راہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے، جن کی مختلف حلقوں کی طرف سے مذمت بھی کی گئی۔
انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظمیں ہیومین رائٹس واچ ’ایچ آر ڈبلیو‘ نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت کو پشتونوں کے خلاف امتیازی رویے بند کرنے ہوں گے اور اس کا آغاز منظور پشتین اور دیگر مظاہرین کے خلاف قائم فوجداری مقدمات کے خاتمے اور قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کے قتل کی غیر جانبدارانہ تحقیقات اور اس میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ چلانے سے ہونا چاہیئے۔
واضح رہے کہ رواں سال کے اوائل میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی نوجوان نقیب اللہ کو مبینہ طور پر ایک جعلی پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا جس کی نہ صرف سماجی میڈیا پر بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی بلکہ ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔
نقیب اللہ کے قاتلوں کی جلد از جلد گرفتاری اور اُنھیں سزا دلوانے کے مطالبات کے ساتھ محسود قبائل کے ہزاروں افراد نے فروری میں اسلام آباد میں کئی روز تک احتجاجی دھرنا دیا۔
پاکستانی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی طرف سے تحریری یقین دہانی کے بعد قبائلی مظاہرین نے اپنا دھرنا ختم تو کر دیا تھا لیکن نقیب اللہ کے قتل کے مرکزی ملزم سندھ پولیس کے افسر راؤ انوار تاحال روپوش ہیں۔
راؤ انوار کی عدم گرفتاری اور دیگر مطالبات پورے نہ ہونے پر پشتونوں نے ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج کو بڑھا دیا۔
منظور پشتین نے کہا کہ اسلام آباد دھرنے کے دوران حکومت نے کہا تھا کہ وہ ایک مہینے میں ان مسائل کو حل کرے گی لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے۔
’’سارے فساد کی وجہ تو یہاں ماورائے عدالت قتل ہیں، ہمارے مطالبات ہیں کہ ماورائے عدالت قتل کے لیے ایک کمیشن بنایا جائے، دوسرا لاپتا افراد کو عدالتوں میں پیش کرنا، اس کے علاوہ راؤ انوار کو گرفتار کرنا اور فاٹا میں غیر ضروری کرفیو لگانے کو ختم کرنا شامل ہیں۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’’ان مطالبات میں سے کوئی بھی غیر آئینی نہیں ہے ۔۔۔۔ سارے ایسے مسائل ہیں جو عام انسان کی زندگی میں آسانی پیدا کریں گے۔‘‘
منظور پشتین کا کہنا تھا کہ اُن کے احتجاج کو میڈیا پر کوریج بھی نہیں دی جا رہی لیکن اُن کے بقول یہ پرامن جدوجہد ہے جو کہ جاری رہے گا۔
پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ کہتے ہیں کہ نہ صرف پشتون موومنٹ کے راہنماؤں کے خلاف مقدمات فوری طور پر ختم کیے جائیں بلکہ اُن کے دیگر مطالبات کو بھی منظور کیا جانا چاہیئے۔
’’پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا مطالبہ یہ ہے جو فاٹا کے لوگ جس کے گھر اجاڑ دیے گئے ہیں مکمل معاوضہ دیا جائے، تمام (رکاوٹیں دور کی جائیں تاکہ) وہ اپنے گھر آسانی سے آیا جایا کریں ۔۔۔ پشتون دہشت گرد نہ تھے نہ ہیں بلکہ پشتون دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں مقتول بھی پشتون ہیں اور قاتل بھی پشتونوں کو سمجھتے ہیں یہ روایات جو ہیں یہ ہمیں ناقابل قبول ہیں۔‘‘
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ کے چیئرمین مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ احتجاج کرنے والوں کے مطالبات جائز ہیں۔
’’پاکستان ایک وفاق ہے جس میں بہت سے کلچر ہیں بہت سی جغرافیائی اکائیاں ہیں اور اس میں سب کو برابر مواقع حاصل ہونے چاہیئں اور اگر کسی کے ساتھ زیادتی کی جائے تو وہ پاکستان کے اتحاد کے لیے نقصان دہ ہو گا لہذا میں یہ سوچتا ہوں کہ ان کی شکایات پر فوری طور پر کارروائی ہونی چاہیئے۔‘‘
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر کہتے ہیں کہ معاملات کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے مسائل کا حل تلاش کیا جانا چاہیئے۔
’’ہماری کوتائیوں اور نظر اندازی کی وجہ سے یہاں پر مایوسی پیدا ہوتی ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ آپ یہاں کے بسنے والے جو لوگ ہیں اگر ان کا کوئی مطالبہ ہے یا ان کے مسائل ہیں تو آپ کو سننا چاہیئے اور جو مسائل حل طلب ہیں ان کو حل کرنا چاہیئے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ وہ اپنے طور پر اس معاملے پر بات کرتے رہیں گے۔
’’ہمیں سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہیئے۔ دیکھیئے اگر معاملات ڈائیلاگ کے ساتھ حل ہوتے ہیں تو کرنا چاہیئے خواہ مخواہ ایک نان ایشو کو آپ ایشو بنا دیں بعد میں اس کو بھگتے رہیں تو میرے خیال میں یہ مناسب نہیں ہے۔‘‘
پشتون تحفظ موومنٹ کا راہنماؤں کا کہنا ہے کہ پشتون دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہوئے اور اُنھیں ہی شدت پسند تصور کر کے نہ صرف شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ ملک کے مختلف علاقوں میں ناکوں پر اُنھیں ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔
اگرچہ پشتونوں کے اس احتجاج کی مقامی میڈیا پر تو مناسب کوریج نہیں ہوئی لیکن پشتون تحفظ موومنٹ کے سماجی میڈیا کو اپنا موقف پہنچانے کے استعمال کیا۔
منظور پشتین نے کہا کہ وہ احتجاج کے دوران یہ ہی کہتے رہے ہیں کہ اس مہم کو پرامن رہتے ہوئے ہی جاری رکھنا ہو گا۔