کراچی میں بلوچ کلچر اور تہذیب پر سیمینار

304

بلوچ اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن (یونیورسٹی آف کراچی) کے زیر اہتمام ایک روزہ سیمینار بعنوان ’’بلوچ کلچر اور تہذیب تاریخی پس منظر میں ‘‘ کراچی یونیورسٹی میں منعقد کیا گیا۔ طلبا و طالبات کی بڑی تعداد نے اس پروگرام میں شرکت کی۔ کوئٹہ سے پروفیسر منظور بلوچ اور ڈاکٹر فاروق بلوچ نے خصوصی شرکت کی۔ سیمینار سے قبل طلبا کی جانب سے ایک کلچرل واک کا اہتمام کیا گیا جو یونیورسٹی کی لائبریری سے شروع ہو کر مختلف شعبہ جات سے ہوتا ہوا آڈیٹوریم تک اختتام پزیر ہوا۔

سیمینار میں اسسٹنٹ پروفیسر حبیب یونیورسٹی ڈاکٹر حفیظ جمالی نے بلوچ کلچر اور کالونیلزم پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے کلچر کو فقط لباس، پگڑی تک محدود کیا گیا ہے۔ کالونیل مفادات کے فروغ کے لیے بلوچی ثقافت کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ انگریز دور سے ہوتا ہوا کالے انگریزوں تک پہنچا۔ انہوں نے بلوچ سرداری نظام پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ بنیادی طور پر آزاد منش تھے۔ سردار پوری قوم کے سامنے جوابدہ ہوتی تھی۔ قبیلے کو نہیں بلکہ سرادار کو اپنی بات منوانی پڑتی تھی۔ انگریز دور حکومت میں قبائلی سسٹم کا رخ تبدیل کیا گیا۔ بلوچ قوم کو سرداری نظام کے اندر جکڑ کر رہ گیا۔ انہوں نے اس موقع پر ایک تفصیلی پریزینٹیشن بھی پیش کی۔

ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری نے کہا کہ ہم جو تاریخ پرھ رہے ہیں اس میں امرا، وزرا، بادشاہوں کی تاریخ ملتی ہے۔ عام لوگوں کی نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ کو جانچنے کے لیے کونسا پیمانہ استعمال میں لایا جائے۔ آرکیالوجی ہی وہ واحد پیمانہ ہے جس سے حقیقی تاریخ کو ناپا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ نہ ایران النسل ہے اور نہ ہی عرب نسل، بلوچ، بلوچ النسل ہے۔ اس کی قدیم تاریخ ہے۔ جسے بدلا نہیں جا سکتا۔

ڈاکٹر اسما ابراہیم کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ بیس سالوں سے شعبہ آرکیالوجی سے وابسطہ ہیں۔ بلوچستان سے انہیں خصوصی لگاؤ ہے۔ اس کے لیے انہوں خضدار، تربت، قلات، نال اور دیگر علاقوں میں نہ صرف آرکیالوجیکل سائیٹس کا وزٹ کیا بلکہ کام بھی کیا۔ یہاں کی نوادرات سے پتہ چلا کہ بلوچوں کی تاریخ مہرگڑھ سے بھی کافی پرانی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی تاریخ کو جاننے اور اسے لوگوں تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان نسل اب اس شعبے سے وابسطہ ہو کر اس کام کا آگے بڑھائیں۔ انہوں نے اس موقع پر افسوس کا اظہار کیا کہ بلوچستان آرکیالوجیکل سائیٹس سے مالامال صوبہ ہونے کے باوجود تاحال آرکیالوجیکل ڈیپارٹمنٹ اور میوزیم سے محروم ہے۔ بلوچستان کی ثقافتی اور نوادراتی ایریاز سے متعلق انہوں نے تفصیلی معلومات پریزینٹیشن کے ذریعے سے شرکا تک پہنچا دیے۔

پروفیسر منظور بلوچ کا کہنا تھا ہمارا المیہ شروع سے یہی رہا ہے کہ ہمارا مضبوط لٹریچر نہیں رہا۔ ہم مغلوب تھے۔ ہماری زبان، ثقافت اور روایات کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا۔ مغلوب قوم کے پاس آپشن موجود تھا کہ وہ اس کا مقابلہ کرتے اور اس کا جواب دیتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری محرومیوں کی زمہ دار وہ ہیں جن کو ہم نے ہیرو بنا دیا۔ جبکہ ہم نے اپنی تخلیق کاروں کو لوڑی اور نقیب کا لقب دیا۔ ایسی صورتحال میں ایک قوم بھلا اپنی شناخت کو کیسے بچا پائے گا۔انہوں نے کہا کہ اس ثقافت و روایات کو لے کر پوری بلوچ قوم تذبذب کا شکار ہے۔

ڈاکٹر فاروق بلوچ نے کہا کہ یہ تاثر دینا غلط ہے کہ بلوچوں کی تاریخ تحریری صورت میں موجود نہیں۔ ہسٹری آف ہیروڈٹس، ایرین کی کتاب میں بلوچستان کا تاریخی ذکر موجود ہے۔ اسٹرے ویلے نے اپنے مضامین میں اس کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا بدل رہا ہے۔ لیکن بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ بلوچ سماج کا کنٹری بیوشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

سیمینار سے ڈاکٹر رمضان بامری اور ڈاکٹر گل لقمان پالاری نے بھی خطاب کیا۔

نظامت کے فرائض کلثوم بلوچ اور وہاب بلوچ نے انجام دیے۔ پروگرام کے اختتام پر مہمانوں میں بلوچی چادر اور شیلڈ تقسیم کیے. اور ایجوکیشنل آرگنائزیشن کے چیرمین زبیر ہوت نے مہمانوں کی آمد کا شکریہ ادا کیا۔

اس موقع پر بک اسٹال اور بلوچی ثقافتی چوٹ اور بلوچی لباس کی نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا۔