بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہاہے کہ چیئرمین غلام محمد بلوچ، لالامنیر بلوچ اور شیر محمد بلوچ کو 3اپریل 2009 کو معروف وکیل اور بی این ایم کے موجودہ سرکردہ رہنماء کچکول علی ایڈوکیٹ کے آفس سے دن دھاڑے پاکستانی سیکورٹی فورسز نے حراست میں لے کر لاپتہ کیااور9اپریل2009 کو ان کی مسخ لاشیں پھینک کر بلوچستان میں ’’مارو اور پھینکو‘‘ پالیسی کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ یہ جنگی جرائم کی تاریخ میں ایک اوراضافہ تھا لیکن چیئرمین غلام محمد بلوچ اور ساتھیوں کی حراستی شہادت پر عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے پاکستان کی مذمت کی لیکن انہوں نے پاکستان کو عالمی قوانین کا جوابدہ بنانے کے لئے کوئی واضح عمل نہیں دکھایا جس سے پاکستان کو بلوچوں کے قتل عام میں استثنیٰ حاصل ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ اب تک پانچ ہزار سے زائد بلوچ فرزند اس بدنام زمانہ ’’مارو اور پھینکو‘‘ پالیسی کا شکار بن چکے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ شہید غلام محمد نے یو این ایچ سی آر کے بلوچستان میں سربراہ جان سولیکی کی بازیابی کیلئے جو کردار ادا کیا وہ ایک تاریخی عمل تھا لیکن غلام محمد بلوچ کی شہادت پر اقوام متحدہ کی جانب سے خاطر خواہ اقدام نہ اُٹھا ایک نہایت افسوسناک امر ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کا بلوچستان کے بارے میں اب تک خاموشی نے بلوچ نسل کشی کو جنم دیا ہے۔ اگر متعلقہ اداروں نے مداخلت نہ کی اور پاکستان کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لا کھڑا کیا تو نہ صرف لاکھوں بلوچوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق رہے گا بلکہ پورے خطہ میں امن ایک خواب رہے گا۔
ترجمان نے کہا کہ واجہ غلام محمد کی شہادت پر بلوچ قوم نے جس رد عمل اور نفر ت کا اظہار کیا وہ قابض پاکستان کیلئے ایک واضح پیغام تھاکہ عظیم رہبر کی شہادت سے قومی تحریک کو ختم یا کمزور نہیں کیاجاسکتا بلکہ اس میں نئی توانائی اور شدت آجائی گی۔ اور وقت نے ثابت کردیاکہ چیئرمین غلام محمد اور ساتھیوں کی شہادت کو بلوچ قوم نے مشعل راہ بنا کر دشمن کے خلاف منظم ہوگئے، جس سے بلوچ قومی تحریک میں استحکام اورواضح پیش رفت سامنے آیا اور دشمن کے عزائم خاک میں مل گئے ۔
انہوں نے کہا کہ آج غلام محمدبلوچ جسمانی صورت میں ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن ان کے انقلابی تعلیمات اور فلسفہ آزادی آج بھی ہماری رہنمائی کررہاہے ۔چیئرمین غلام محمد کا فکر وسوچ اور سیاست کا محور بلوچ قوم کو ساتھ ملاکر پارٹی اداروں کے بنیاد پر تحریک آزادی کو منظم کرنا تھا۔ انہوں نے بلوچ قومی تحریک میں پارٹی اور اتحاد کے خلاء کو بھرنے کا نہ صرف ادراک کیابلکہ اسے پر کرنے کے لئے عملی اقدامات کئے اس میں کامیابی انہیں بلوچ نیشنل موومنٹ جیسی پارٹی کے ازسرنوتشکیل اور مضبوط کرنے کی صورت میں ملا اور بلوچ نیشنل فرنٹ جیساایک سیاسی اتحاد قائم کیا مگر چند نا عاقبت اندیشوں کی وجہ سے یہ اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔
ترجمان نے کہا کہ چیئرمین غلام محمد کا فلسفہ ہماری سیاست کا رہنمااصول اورکامیابی کاضامن ہیں۔ مقبوضہ بلوچستان اور دنیا بھر میں تمام زونوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ 3اپریل سے 9اپریل تک عظیم رہنماء کی تعلیمات اور فکر و فلسفے پر ریفرنسز اور پروگرام کا انعقاد کریں۔