بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں میر چاکر خان یونیورسٹی کے قیام پر تاخیری حربے اور صرف نام پر تنگ نظری کے اقدام پر گہرے تشویش اور رنج کا اظہار کیا .ترجمان نے مزید کہا کہ تعلیمی حوالے سے بلوچستان دیگر صوبوں سے پسماندہ ہے ہر سال صوبائی بجٹ میں تعلیم پر خطیر رقم مختص کی جاتی ہے لیکن یہ رقم تعلیم پر خرچ ہونے کے بجائے پتہ نہیں کہاں خرچ کی جاتی ہے جس سے تعلیمی نظام میں تبدیلی کے آثار تک نظر نہیں آتے .2017.18 کے بجٹ میں تعلیم کے لیے 46 ارب روپے رکھے گئے جن میں دو ارب 84 کروڑ یونیورسٹیوں پر مختص کئے گئے لیکن بد قسمتی کہیں یا تعلیم دشمن اقدامات کہ اس رقم کا 35 فیصد بھی تعلیم پر خرچ نہ ہوسکا. گزشستہ ساڑھے چار سالوں میں تعلیمی ایمرجنسی کے نام پر جو کارنامہ انجام دیا گیا وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں . بلوچستان میں بہترین یونیورسٹی نہ ہونے کی وجہ سے طلبا و طالبات کراچی یا پنجاب کا رخ کرتے ہیں جہاں انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.
ترجمان نے کہا کہ تین سال پہلے سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نےدورہ سبی کے موقع پر میر چاکر خان یونیورسٹی کے نام پر یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا لیکن اس یونیورسٹی کے قیام کو لسانی بنیادوں پر تعصب کی بھینٹ چڑھایا گیا جس کی وجہ سے یونیورسٹی کے قیام کا معاملہ سرد خانے کی نذر ہونے جارہا ہے جو تشویشناک امر ہے گزشستہ دنوں وزیر تعلیم نے چاکر خان یونیورسٹی کا بل اسمبلی میں پیش کیا تو اس کو ایک بار پھر صرف نام کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا اور ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی بھی دیکھنے کو ملی.
ترجمان نےمذید کہا ہم وزیر اعلی بلوچستان اور وزیر تعلیم سے گزارش کرتے ہیں کہ پوری طور پر سبی میں چاکر خان یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ بلوچستان کے طلبہ و طالبات اپنے علاقے میں تعلیم حاصل کریں جو ان کا بنیادی حق ہے.