پشتون بیداری اور بلوچ
تحریر: فیصل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
ایک قوم جب جاگتا ہے تو پھر دنیا کی کوئ بھی طاقت اُس کو سلا نہیں سکتا، اسے پراکسی نہیں بنا سکتا اور اس کو غلام نہیں رکھ سکتا کیونکہ جاگتے ہوئے قوم کا راستہ کوئ بھی بھپرا ہوا طوفان نہیں روک سکتا مگر جاگا ہوا قوم کسی بھی قسم کے طوفان کا راستہ روک سکتا ہےـ کسی بھی قابض و سامراج کو تہس نہس کر سکتا ہےـ اس کی کئ جیتی جاگتی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ـ
پہلا مثال ہم چین کا لیتے ہیں چینی قوم دنیا میں چرسی، افیونی، شرابی نیز مختلف نشوں کے نام سے مشہور تھےـ دنیا جہاں سے بے خبر نشے میں دھت اپنے غلامی کی زندگی میں قید دنیا سے بہت پیچھے نچلی سطح کی زندگی جی رہے تھے پھر ان کی زندگی میں ماؤزے تنگ جیسا ہیرو آیا، جنہوں نے انکو یکجا کرکے ایک قوم بنایا، انکو اتحاد کا راستہ دکھایا ان کو دنیا کے قوموں میں ایک قوم کی حیثیت دلادی، ان کو مزاحمت کا راستہ دکھا کر اپنے سے طاقت ور دشمن کو شکست دے کر آزادی حاصل کرلی، پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور آج ہم دیکھ رہے ہیں وہی چرسی، شرابی، افیونی چینی قوم جاگنے کے بعد دنیا کے سپر پاور امریکہ، برطانیہ، روس وغیرہ کو ٹیک اوور کر کے علمی، معاشی اور عسکری طاقت میں آگے نکلنے والی ہےـ
ویت نام میں شکست کے بعد امریکی شکست خوردہ فوج نے کہا تھا کہ اگر ہمارا واسطہ دنیا کی کسی بھی طاقت سے پڑی ہوتی تو ہم اس کو نیست و نابود کرتے، مگر ہمارا واسطہ ایک قوم سے پڑا تھا، جو ہمارے شکست کا سبب بنا ایک جاگتے، باشعور و متحد قوم کو شکست دینا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہےـ
ویت نام نے کتنے دشمنوں کو نیست و نابود کردیا امریکہ اور فرانس جیسے طاقت کے نشے میں چور بدمست ہاتھیوں کو دھول چٹا دی کیونکہ وہ جاگ گئے تھے ان میں شعور آگیا تھاـ
ہندوستانی قوم ذات پات، مذہب و مسلک کے جال سے نکل کر عظیم مہاتما گاندھی، شہید چندر شیکھر آزاد اور شہید بھگت سنگھ کی قیادت میں قابض گوروں کو بھاگنے پر مجبور کردیا کیونکہ وہ جاگ گئے تھے، انہیں اپنی غلامی کا احساس ہوگیا تھاـ
ایک وقت تھا کہتے تھے کہ سلطنت برطانیہ میں رات نہیں ہوتی، گورے زمین کے اتنے بڑے حصے پر قابض تھے کہ برطانیہ کے مقبوضہ جات کے ایک کونے میں رات ہوتی تو دوسرے حصے میں دن کا وقت ہوتا مگر برطانیہ کے مقبوضہ مخلوق جاگ گئے اور برطانیہ کے ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت کر کے اس کے قبضے سے کئی ممالک کو آزاد کر دیاـ
بلوچ قوم جو پچھلے 70 سالوں سے پاکستان کے خلاف مختلف مراحل میں مزاحمت کر کے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ـ آغا عبدالکریم خان سے شروع ہونے والی مزاحمت اکیسیوں صدی میں ایک نیا روپ اختیار کر چکا ہے، آج بلوچ قوم کا بچہ بچہ جاگ گیا ہےـ بلوچ قوم میں شعور آ چکا ہے بلوچ و سندھی قوم بڑی قربانیوں کے بعد پاکستان کو باور کراچکے ہیں کہ ہم جیتے جاگتے اور تاریخی حیثیت رکھنے والے اقوام ہیں نہ کہ پاکستان کی طرح کسی کی کالونی (برطانیہ) اور نہ کسی کے پراگسی (امریکہ) ہیں ـ
ہمارے بیچ ایک اور بہت ہی بہادر، ایماندار، مخلص اور سادہ لوح قوم پشتون رہتے ہیں دنیا ان کے مخلصی اور ایمانداری کا فائدہ اُٹھا کر انہیں غلط استعمال کر رہا ہے، پشتون قوم کی تاریخ بہادری اور ایمانداری کی شاندار مثالوں سے بھری پڑی ہے، پاکستان بننے کے بعد پاکستان، امریکہ اور سعودی عرب نے ان کو ہر اس آگ میں جھونک دیا، جو پاکستان، امریکہ اور سعودی عرب کے مفاد کے لیئے لگائ ہوئ خود کی اپنی آگ تھی، آج نام نہاد جہاد کے نام پر دنیا کے کونے کونے میں پشتون قوم کو بے موت مروایا جارہاـ
پشتون تاریخی طور پر ترقی پسند و آزادی پسند اور وطن پرست قوم رہا ہےـ پشتونوں نے اپنے حریت کے دفاع کے لیئے سیاست اور عسکریت کے میدان میں اپنا لوہا منوایا ہےـ یہی وجہ ہے کہ آج تک من حیث القوم انھیں کوئ غلام نہیں بنا سکاـ
انگریز ہندوستان پر کئ سو سال حکومت کرتے رہے لیکن قبائلی علاقوں میں انکا یہ خواب پورا نہ ہوسکا کیونکہ خوشحال خان، ایمل خان مومند اور دریا خان آفریدی نے سخت مزاحمت کر کے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دئیےـ
پشتون نیشنلزم کو مکمل ختم کرنے کے لیئے پاکستان نے مجاہدین اور طالبان کے ذریئے کابل کو جلا دیا، جس میں جنرل ضیاءالحق، مولانا مودودی اور جنرل حمید گل پیش پیش تھےـ پشتون علاقوں کے مُلا اور مولوی اسمبلیوں تک پہنچ گئےـ پشتون علاقوں میں معیاری تعلیمی اداروں کے بجائے مدرسوں کے جال بچھائے گئے، جہاں بغیر وردی کے فوجی تیار ہونے لگے جو ان جرنیلوں کے لیئے کبھی مجاہدین اور کبھی طالبان بن کر لڑنے لگےـ
سب سے خطرناک کھیل پاکستان نے پشتون قوم کے ساتھ یہ کھیلا کہ پشتون علاقوں میں تبلیغی جماعتوں کو بے لگام گھوڑے کی طرح چھوڑ دیاـ جنہوں نے پشتون نوجوانوں کو انکی ثقافت، انکے قومی رسم و رواج اور قومی سیاست سے دور کردیاـ
وہ پشتون نوجوان جو اعلٰیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنے قوم کے لیئے کچھ کرتے انھیں ان ملاؤں نے جہادی بنا کر بے مقصد جنگ کے آگ میں جھونک دیاـ اسٹبلشمنٹ پہلے وہاں کے سادہ لوح پشتونوں کو امریکہ اور سعودی عرب کی مدد سے اسلحہ، پیسہ اور جنگی تربیت دے کر مجاہدین اور طالبان بنا کر نام نہاد جہاد کے نام پر بے موت و بے مقصد مرواتا رہاـ لیکن بعد میں امریکہ کے دباؤ میں آکر یوٹرن لیتے ہوئے انہی مجاہدین کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال شروع کردیا، آپریشن ضربِ عضب، آپریشن راہِ نجات، آپریشن راہِ حق، آپریشن ردالفساد وغیرہ وغیرہ کے نام پہ پشتونوں کی نسل کشی شروع کردی گئی لاکھوں پشتونوں کو بے گھر کر دیا گیا، گھروں کے گارڈر، سریا، لکڑی، دریچے، دروازے اور اینٹیں چوری کر کے لے گئے گھر جلا دیئے گئے، گھروں سے قیمتی سامان لوٹے گئے، مال مویشی فوجی کیمپوں میں منتقل کر دیئے گئے، قدم قدم پہ بارودی سرنگ بچھا دیئے گئے جن کے زد میں آکر سینکڑوں بے گناہ لوگ عورتیں، بچےاور بزرگ معذور ہوگئے، کچھ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے آج بھی پشتون پاکستان کے کونے کونے میں ذلیل و خوار دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں وزیرستان، قبائلی علاقہ جات اور گلگت بلتستان کو بلڈوز کر کے کھنڈر بنا دیا گیا، ہزاروں پشتون نوجوان، سیاسی کارکن غائب ہیں اور ہم بلوچوں سے زیادہ کس کو پتہ ہوگا کہ مغوی لوگ کہاں اور کس حال میں ہیں مقامی معدنیات پر قبضے کے لیئے یہ سارا کھیل کھیلا گیاـ تحفظ پشتوموومنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 35 ہزار پشتون اغواء ہیں ـ
سیکیورٹی کے نام پر بلوچ اور پشتونوں کو ایف سی (فرنٹیئر کور) چیک پوسٹوں پر گاڑیوں سے اتار کر انکی تذلیل کی جاتی ہے، کپڑے اتار کر انکی تلاشی لی جاتی ہے، ٹوپی، دستار وغیرہ اتار کر پاجامے کے اندر ہاتھ ڈال کر تذلیل کی جاتی ہےـ
چیک پوسٹوں پر پشتون اور بلوچوں کے ماں، بہنوں کو تاڑا جاتا ہے، وہ ماں بہنیں جن کی عزت کے لیئے بلوچ و پشتون خون کی ندیاں بہانے سے دریغ نہیں کرتے آج بھی پاکستانی ٹارچر سیلوں میں بلوچ و پشتونوں کی ماں بہنیں گینگ ریپ کا شکار ہیں۔ پاکستانی فوج نے ریپ کا جو کھیل بنگلہ دیش میں کھیلا تھا وہ کھیل آج بھی جاری ہے مگر بنگالیوں کی جگہ آج انکے ظلم کا شکار بلوچ، سندھی اور پشتون ماں بہنیں ہیں ـ
اتنے ظلم کے بعد پشتونوں اور بلوچوں پر کراچی میں چوہدری اسلم اور راؤ انوار جیسے سرکاری درندے مسلط کر دیئے گئے، جنہوں نے بلوچ اور پشتونوں کے کاروباری، ماڈلنگ، روشن خیال اور سیاسی نوجوانوں کو دہشت گردی کے نام پر جعلی انکاؤنٹر میں مار دیئےـ
مشال خان جیسے تعلیم یافتہ اور روشن خیال طالب علم کو توہینِ رسالت کے نام پہ بے دردی سے قتل کردیا گیا کیونکہ مشال خان شہید نواب اکبر خان بگٹی، کارل مارکس اور لینن کا بہت بڑا پرستار اور پیروکار تھا ـ
اتنے ظلم کے بعد اگر پشتون قوم نہ جاگتا تو ان جیسا منافق کوئ نہیں ہوتا، آج تحفظ پشتوموومنٹ کے پلیٹ فارم سے سے نوجوان سیاست دان منظور پشین کے قیادت میں جو تحریک پشتون قوم نے شروع کیا ہے اسکو سرد پڑنے نہیں دینا ہے پشتون قوم کے نوجوان چاہے وہ جس فیلڈ سے ہوں طالب علم، مزدور، محنت کش سب منظور پشتین کا ہاتھ مضبوط کر کے اپنے آزادی کی جہد کو آگے بڑھائیں۔
پشتون قومی تحریک سے پاکستانی ادارے اور اسٹبلشمنٹ بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں، جعلی پشتون کلچر ڈے منانا، جلسہ منعقد ہونے والے جگہ پہ دوستانہ فٹ بال میچ کھیلنا، جلسے کے دوران نیٹ بند کرنا، فون کے روابط کاٹنا، جعلی پشتون قوم پرستی کے ترانے الاپنا، زید حامد جیسے انٹرنیشنل دہشت گرد کا پشتون قومی تحریک کے رہنماؤں کو ” را اور ای ڈی ایس” کا ایجنٹ قرار دینا اور پشتون قومی تحریک کے جلسوں سے میڈیا کو دور رکھنا پاکستانی اداروں اور اسٹبلشمنٹ کے بوکھلاہٹ کا واضح ثبوت ہے۔
اور کیوں نہ بوکھلا جائیں پاکستانی ادارے اور اسٹبلشمنٹ کیونکہ انکے سارے منفی حربوں کے باوجود پشتون قوم متحد ہوگئے اپنے حق و حقوق کے لیئے میدانِ کارساز میں اتر آئے اور سب سے قابلِ ستائش بات یہ کہ پشتون قومی تحریک میں بچیوں اور عورتوں نے شرکت کی بلوچ اور پشتون قومی جلسہ جلوسوں میں بچیوں اور عورتوں کا شرکت کرنا عام بات نہیں ہوتی، خاص بات ہوتی ہے، اب پشتونوں کو دل میں لگی یہ آگ بجھنے نہیں دینا ہے، ورنہ انکا نام و نشان مٹ جائے گا، دنیا سے اب جو چلے ہیں انقلاب کے راہ پہ تو آزادی چھین کر لوٹنا ہوگا پاکستان کو دِکھانا ہوگا کہ شہاب الدین غوری، محمود غزنوی،میر وائس خان نیکہ، شیرشاہ سوری اور احمد شاہ ابدالی کی اولادیں اگرچہ خاموش بیٹھے ہیں مگر انکے تلواروں کو زنگ نہیں لگا ہے ابھی تک اور اس انقلاب میں تمام پشتون ماں، باپ، بھائ، بہن اور بزرگوں کو منظور پشین سمیت ” پشتون قومی تحریک، تحفظِ پشتوموومنٹ اور پشتون بیداری تحریک” کے تمام قائدین، لیڈروں اور کارکنوں کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا تب جاکے اس پاکستان جیسے ناسور ریاست سے آزاد ہوکے اپنا پشتونستان آباد کرکے چین و سکون کی زندگی جی سکیں گےـ