پشتونوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیاں بند کی جائیں، منظور پشتون

801

پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتون اور صوبے کے دیگر سیاسی قائدین نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان  بھر میں پشتونوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیاں بند کی جائیں ۔ کر اچی میں قتل کئے جانے والے نقیب اللہ کے قتل میں ملوث پولیس کے روپوش افسران کو عدالت میں پیش کیاجائے۔

منظور پشتوں  نے کوئٹہ کے صادق شہید پار ک میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا نے اپنے مفادت کی خاطر 40 سال تک پشتونوں کی سرزمین کو میدان جنگ بنا رکھا ہے۔ جہاد اور جہادیوں کے نام پر مختلف لوگوں کو پیدا کیا گیا جنہوں نے سب سے پہلے پشتونوں کے قبائلی مشیران اور سیاسی رہنماﺅں کو قتل کیا۔ غیر وں کی طرف سے پشتونوں پر مسلط کردہ جنگ میں ہزاروں پشتون مارے گئے اور لاکھوں کی تعداد میں بے گھر اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اتنی بڑی قربانیوں کے باوجود آج بھی پشتونوں کے اپنے علاقے میں نہ تو روزگار ہے اور نہ ہی دیگر سہولیات ہیں، ان حالات سے تنگ آکر جب پشتون پاکستان  کے دوسرے صوبوں کا رُخ کر تے ہیں تو وہاں بھی ان پر مختلف بہانے بنا کر اُن کو تنگ کیا جاتا ہے اور تھانوں میں بند کیاجاتا ہے۔

منظور پشتون کا کہنا تھا کہ کر اچی میں ایک بے گناہ پشتون نوجوان نقیب اللہ کو پہلے گرفتار کیا گیا اور بعد میں اُسے عدالت میں پیش کرنے کے بجائے پولیس نے قتل کردیا اور اس کیس میں نامزد پولیس افسران کو بھی گرفتار نہیں کیا جارہا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے وزیراعظم نے اسلام آباد میں دھرنا دینے والے پشتون رہنماؤں سے ایک ماہ کے اندر قتل میں ملوث پولیس افسران کو گرفتار کرنے کا وعدہ کیاتھا لیکن اب تک اُن کو گرفتار نہیں کیا گیا، ا نہوں نے نوجوانوں پر زوردیا کہ اسلام آباد میں دوبارہ دھرنا دینے کےلئے تیار رہیں اورجلد اس حوالے سے دوبارہ دھرنا دینے کےلئے اعلان کیاجائیگا۔

جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے پشتون اولسی جرگے کے سربراہ نواب ایاز خان جوگیزئی ، جمعیت علماءاسلام نظریاتی کے صوبائی امیر مولانا عبدالقادر لونی‘ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری حاجی نظام الدین کاکڑ ‘ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے احمد علی کہزاد ‘بی این پی کے غلام مری اور دیگر مقررین نے کہاکہ کو ئٹہ میں شہید کئے جانے والے وکلاء برادری کے قاتلوں کو ڈیڑھ سال سے زائد عر صہ گزرنے کے باوجود گرفتار کیا گیا اور نہ اُن کے سہولت کاروں کو منظر عام پر لایاگیا۔ مقررین نے کہا کہ پشتون قبائل، ڈاکٹروں، اساتذہ، وکلاء اور دیگر کو مجبور نہ کیاجائے کہ وہ اپنا کاروبار، ملازمت اور تجارت چھوڑ کرایک بار دھرنا دینا شروع کردیں۔

انہوں نے کہا کہ پشتونوں کا بہت خون بہا یا گیا اب مزید خون بہانے نہیں دیں گے ، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پشتونوں کے اپنے علاقوں میں فنی و تعلیمی ادارے اور یونیورسٹی نہیں بنائی جا تیں تاہم دیگر صوبوں کی یونیورسٹیوں میں پشتون نوجوانوں کیلئے کوٹہ مقرر کیا جاتا ہے جہاں پشتون طلبا کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہوتا اور اکثر و بیشتر اُن پر حملے کئے جاتے ہیں۔

جلسے سے پہلے پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں، وکلاء، تاجر برادری اور سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں نے کو ئٹہ شہر میں بڑے جلوس نکالے جس میں ہزاروں کی تعداد میں وکلاء، ڈاکٹروں اور دیگر لوگوں نے شرکت کی ۔

پشتون تحفظ موؤمنٹ کی جانب سے کوئٹہ لانگ مارچ کے جلسہ عام  میں بلوچ خواتین اور طلباء کی بڑی تعداد نے اظہار یکجہتی کے طور پر شرکت کی ہے۔-

لانگ مارچ میں شریک بلوچ خواتین و طلباء نے ہاتھوں میں لاپتہ بلوچ افراد کی تصاویر اٹھا رکھی تھی جن پر لاپتہ بلوچ افراد کی رہائی کے مطالبات درج تھے۔-

اس موقع پر بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد نے جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ اورپشتون قوم کی جانب سے اپنی حقوق کی جدوجہد ایک مثبت عمل ہے، پشتونوں نے پاکستان کی جبر کے خلاف آواز اُٹھاکر اپنے تاریخی روایات کو زندہ رکھا ہے، قبضہ گیر طاقتوں کے خلاف پشتونوں نے ہمیشہ سرزمین اور قوم کا دفاع کیا ہے، آج پاکستان نہ صرف پشتونوں کا قتل عام کررہا ہے بلکہ ان کے قومی وجود کو بھی ختم کرنے کی کوشش کررہا ہے، پشتون قوم کی جانب سے اسلام آباد دھرنا اور پشتون تحفظ موومنٹ پاکستانی ظلم و جبر کے خلاف اظہار نفرت ہے۔ پاکستان نہ صرف بلوچوں کی بلکہ پشتون، سندھی اور دیگر محکوم قوموں کی نسلی، معاشی اور سیاسی استحصال کررہا ہے، اس خطے میں بسنے والے تمام محکوم اقوام پاکستان کے خلاف مشترکہ جدوجہد کیلئے راہ ہموار کریں۔

دوسری جانب بلوچستان کی سب سے بڑی آزادی پسند جماعت بلوچ نیشنل مومنٹ کےچیئرمین خلیل بلوچ نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں بلوچ قوم سے اپیل کی ہے کہ پشتون لانگ مارچ کی کوئٹہ آمد پر بھرپور شرکت کرکے پشتون قوم پر ہونے والی مظالم پر آواز اُٹھانے والوں کا ساتھ دیں، بلوچ قوم کی طرح پشتون اور سندھی بھی محکوم اقوام ہیں، انہیں اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کیلئے پنجابی بالادستی اور پاکستانی مظالم کے خلاف جہد آزادی جیسے عظیم عمل کی شروعات کرنی چاہئے۔ پاکستان کا وجود میں آنے کے بعد دوسری قومیتوں کو جس طرح نوزائیدہ ملک کا حصہ بناکر استحصال شروع کیا گیا وہ آج تاریخ کی بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ بلوچ، سندھی، پشتون اور دوسری قوموں کا نہ صرف معاشی استحصال جاری ہے بلکہ ان کی زبان و ثقافت کو داؤ پر لگایا ہوا ہے۔ یہ تاریخی جبر و استبداد اس وقت ختم ہوسکتے ہیں جب یہ قومیں اپنی سرزمین ، وسائل اور شناخت کا مالک اور فروغ کیلئے آزاد اوراقتدار کے مالک ہونگے