نورالحق عرف بارگ
تحریر سیم زہری
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
بلوچستان کے نڈر جانثار سرمچاروں میں سے ایک سنگت کا نام جس نے خاران کے سرزمین پر آنکھ کھول کر غلام سماج میں ہوش سنھبالا،یوں تو سینکڑوں افراد اس دھرتی پر جنتے ہیں اور گمنامی کی زندگی گزار کر گمنام موت مر جاتے ہیں مگر شہید نورالحق وطن کے ان سپوتوں میں سے تھا جس نے اپنے اردگرد غلامی کے ناسور سماج کو بھانپ کر اسے قبول کرنے سے انکاری رہا
بزات خود اس سنگت سے کبھی ملاقات نہیں ہوا تھا مگر اتنا یقین سے کہے سکتا ہوں کہ وطن کی محبت نے اسے خاران کے میدانوں سے نکال کر مشکے پھر زہری کے سنگلاخ چٹانوں پر مورچہ زن کیا ہوگا۔
سیاست سے مسلح جہد کا سفر لفظوں کی زبانی چار سطروں پر آبھی جائے مگر وہ مشکلات وہ خواری وہ مخلصی وہ محنت جو سنگت بارگ نے ہر شکل میں ادا کی ہوگی وہ احساس کبھی بیان نہیں ہو سکتا۔
وطن کے عشق میں مگن عاشقوں کا اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا وہ تو بس اپنے دشمن کے طاق میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب کہاں سے اسے نیست کرنے کا موقع ملے تب ہی وطن کا یہ سپوت زہری جھالاوان کا رخ کرتے ہوئے اپنے محاذ کا انتخاب کرکے آخری گولی تک اپنے قوم اپنے لوگوں کے خاطر لڑتا رہا اور شعور بانٹتا رہا. محبت اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ جو شخص اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ کر ایک انجان علاقے میں آئے جہاں اسے کوئی پہچان تک بھی نہ ہو پربھی وہ ہر ایک کو اپنا مانتا ہو ہر ایک کو برابری کے نظر سے دیکھتا ہو ہر ایک کی خاطر برابر محبت رکھتا ہو ہر ایک کے خاطر برابر لڑتا ہو۔
تاریخ اگر یاد رکھے گی تو ایسے لوگوں کو ہی یاد رکھے گی جنہوں نے اپنی انا، اپنی ذات اپنی جان تک کو پرے رکھ کر ایسے سفر پر گامزن ہوئیں، جہاں سے انکا لوٹنا اس سویرے تک نا ممکن تھا مگر پھر بھی وہ مسکراتے ہوئے اس سفر کو جاری رکھے ہوئے تھے بس ایک سوچ کے ساتھ کے ہم رہے نہ رہے مگر ہمارے لوگ ہمارا وطن دشمن کی چنگل سے چٹکارا حاصل کر سکے۔
ہم میں احساس اس قدر مر چکا ہے کہ ہم نے اپنے ہمسایہ کے لاش کو کندھا دینے کا بھی ہمت نہیں رہا مگر نورالحق جیسے فرزند جو دشت گیابانون میں بھی سفر کے دوران ہر ایک بزگر شوہان کے معمولی سے درد کو بھانپ کر اس پر تڑپ اٹھینگے جن بچوں کے ٹوٹے پوٹے الفاظ بھی انہی سمجھ نہ آتے ہونگے انکے پھٹے پرانے کپڑے دیکھ کر ننگے پاؤں دیکھ کر اپنے بزگ قوم کے لاچاری کا احساس ضرور ہوا ہوگا۔
تب ہی تو اس آخری گولی کے لمحہ صرف سانسیں رکھ گئی ہونگے کیونکہ اس جیسے بہادر سنگتوں نے تو زندگی کو اس وقت خیر آباد کیا تھا جب انہیں اپنے غلامی کا احساس ہو چلا تھا وہ اس درد میں اس قدر چل چکے تھے کہ گولی کی درد انکے سامنے کچھ بھی نہ ہوگا۔
شہید امیر الملک شہید ساتک، شہید ضیاء کے ہمراؤں میں شامل ہوکر شہید نورالحق نے مادر وطن کا حق ادا کرتے ہوئے باقی سفر کی زمہداری اپنے دوستوں و قوم کے کاندھوں پر چھوڑ کر چلا گیا اس امید کے ساتھ کہ میرے بعد میرے ہمراہ میرے دوست میرا قوم اپنے آجوئی کے جنگ کو اس مقام تک پہنچا کر دم لینگے جس دن کا وعدہ کر کے یہ سفر شروع کیا تھا
میں بہادر بھائی کے بہادر بہن کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے اپنے نوجوان بھائی کے جسد کو وصول کرتے ہی قوم و وطن کو یہ مبارک بادی دی کہ اسکا بھائی کامیاب ہوگیا اپنے مشن پر اپنے مقصد پر وہ جس سفر پر نکلا تھا اس نے وہ پوری ایمانداری سے نبھا کر وطن پر جان نچھاور کر چلا۔
گھر سے جو نکلا تھا اپنے مقصد کو پانے اسے پا کر وہ پھر سے گھر کو لوٹ گیا ہمارے لئے چھوڑ گیا بس زمہداری اور مقصد
اب اس کے بعد وہ ہمراہ رہینگے ہمارے ہر سرمئی شام میں وہ دشمن کے طاق میں رہینگے خاران سے ملغوے کی چوٹی تک
کیونکہ انہیں ہنر آتا ہے جان پر کھیل کر اپنے وطن کی دفاع کرنے کا وہ امر ہے وہ ہمیشہ زندہ رہینگے ہر اس گولی کی آواز میں جو وطن کے آجوئی میں چلی ہو