نئے موڑ پر مجلس: تضادات کے ساتھ اشتراک عمل – قاضی دادمحمدریحان

341

نئے موڑ پر مجلس: تضادات کے ساتھ اشتراک عمل

قاضی دادمحمدریحان

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

فنانشل ٹائمز کی رپورٹ نے بلوچ سیاست میں ہلچل مچا دی، جب اس نے بالخصوص “قبائلی علیحدگی پسند” کا لفظ استعمال کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ”چین بلوچستان میں اپنی ساٹھ بلین ڈالر مالیت کی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے قبائلی علیحدگی پسندوں سے گزشتہ پانچ سالوں سے بات چیت کررہا ہے جس سے چین کے حق میں مثبت پیشرفت ہوئی ہے ۔”

اس رپورٹ پر پہلاردعمل بلوچستان نیشنل فرنٹ ( بی ایل ایف) کی طرف سے آیا جس نے نہ صرف ایسی کسی بات چیت سے انکارکیا بلکہ امکان کو بھی مسترد کردیا۔جب کہ صحافیوں کے رابطہ کرنے پر بھی “ھیربیارمری” نے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے بارے میں کسی بھی قسم کے تبصرے سے انکار کیا۔ھیربیار سے جڑے لوگوں کا ماننا ہے کہ “اس رپورٹ پر تبصرے سے اس کی اہمیت میں اضافہ ہوگا اور یہ پیغام جائے گا کہ ضرور کچھ نہ کچھ ہوا ہے کہ جس پر بات کی جارہی ہے ۔”

ھیربیار کے اس محتاط رویے کے باوجود اس رپورٹ نے تمام حلقوں میں بے چینی پیدا کی ۔پاکستانی سینٹ میں بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ چین کس بنیاد پر یہ سب کررہا ہے، بالآخر چین کو بھی باضابطہ طور پر اس کی تردید کرنی پڑی ۔

لیکن بلوچ قبائلی علیحدگی پسندوں کی طرف سے واضح اور دوٹوک ردعمل نہ ہونے کی وجہ سے ابہام میں اضافہ ہوا اور بی ایل ایف کے ترجمان کے بیان میں اس رپورٹ کی صداقت کو جھٹلایا گیا تھا، اس پر بعد میں اندرونی حلقوں کی طرف سے عدم اطمینان کا اظہار بھی سامنے آیا۔

سی پیک حوالے قبائلی رہنماوں کی سازباز کی کوئی اہمیت نہیں :اسلم بلوچ

ھیربیار سے جڑے حلقے میں یہ بات یقین سے کی جارہی ہے کہ چینی اہلکاروں سے اخترمینگل اور گزین مری کے خفیہ رابطے ہوئے ہیں ۔اخترمینگل نے اس بات کو مسترد کرتے ہوئے دلیل دیا ہے کہ: ” اسے چینی اہلکاروں سے عرب امارات میں خفیہ ملاقات کی کیا ضرورت جب کہ وہ پاکستان میں ہی ان سے ملاقات کرسکتے ہیں ۔”

گزین مری کے سرینڈر ہونے کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ یہ ان ہی خفیہ ملاقاتوں اور بات چیت کا نتیجہ ہے ۔

لیکن کیا فنانشل ٹائمز جیسے موقر جریدے کے رپورٹرز کو علیحدگی پسندی اور اخترمینگل کی سیاست کے درمیان کوئی فرق معلوم نہیں یا پھر وہ کردار اخترمینگل اور گزین دونوں نہیں ہیں؟

گزین ہوسکتے ہیں کہ سرینڈر ہونے سے پہلے اس عمل کا حصہ رہے ہوں کیوں کہ وہ ھیربیار سے اختلاف کے باوجود بلوچستان کی آزادی کے موقف کی حمایت کیا کرتے تھے تو ان کا سرینڈر ہوکر ”چنگیزی سیاست ”کا حصہ بننا محض ان کی اپنی خواہش نہیں ہوسکتی یقینا ان کو اس طرف راستہ دکھانے اور راستہ دینے والے موجود ہوں گے۔گزین کے گرد پاکستان نے گزشتہ کئی سالوں سے گھیرا تنگ کررکھا تھا وہ متحدہ عرب امارات میں نظربند تھے، پاکستانی سفارت خانے نے ان کا پاسپورٹ ری نیو کرنے سے انکار کر رکھا تھا اور وہ ایک مقامی بلوچ کی ضمانت پر تھے مگر نوبت سرینڈر کرنے تک کیسے پہنچی؟ اس کا گزین نے اپنے قریبی دوستوں کو بھی بھنک لگنے نہیں دیا۔گزین کے اس عمل سے سردارخاندانوں میں آپسی رسہ کشی اور پیچیدہ تعلقات کی بھی قلعی کھل گئی ہے کہ ان کی گہری سیاست غیرشفاف، مبہم اور سطحی بیانات سے مختلف ہیں پس پردہ وہ کچھ ایسا بھی کرتے ہیں جن کا تعلق ان کے ذاتی مفادات اور سیاسی اثرورسوخ سے ہے۔ وہ اپنی قبائلی حیثیت، ذاتی تعلقات اور قبائلی تنظیم کو ” سودابازی” کی میز پر بھرپور استعمال کرتے ہیں اور ان مخصوص مفادات کو مجموعی قومی مفاد سے مقدم رکھتے ہیں۔

چین سے مذاکرات کے رپورٹ پر بی آر پی اور بگٹی آزادی پسندوں نے بھی ایک گوناں مثبت ردعمل کا اظہار کیا ۔سوشل میڈیا پر ہونے والے اظہارات سے یہ تاثر دیا گیا کہ یہ قبائلی آزادی پسندوں کی کامیابی ہے کہ چین نے ان کے رہنماؤں سے بات چیت کی ہے یا ایسی کسی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔

بی آر پی کے رہنماء براھمدگ بگٹی نے اپنے ٹویٹ میں اس بیانیہ کی تائید کرکے، بی ایل یف کے موقف سے مختلف بات کی۔

براھمدگ کے اس بیان سے کہ ” چین کا حقیقی قائدین سے بات چیت اور رابطہ کاری خوش آئند ہے ”، ان شکوک کو مزید تقویت ملی کہ قبائلی آزادی پسند، چین کے ساتھ ضرور کسی بات چیت کا حصہ رہے ہوں گے ۔

فنانشل ٹائمز کے حوالے سے بھی یہ واضح ہو کہ جاپانی میڈیا فرم کے ماتحت یہ ادارہ بین الاقوامی اعتبارکا حامل ہے، توقع رکھی جاسکتی ہے اس کاٹھ کا ادارہ انتہائی ذمہ داری اور باوثوق ذرائع سے رپورٹ کرئے گا۔

بی ایل ایف اور بی ایل اے اشتراک عمل کیلئے راضی ہوگئے ۔ گہرام بلوچ

اب کہ یہ مندرجات لکھے جارہے ہیں، بلوچ سیاست اسی تناظر میں نیا موڑ لے چکی ہے ۔ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ نے قبائلی اور غیرقبائلی آزادی پسندوں کے موقف اور سیاسی رسائی کے تضادات کو ماضی کی نسبت مزید واضح کردیا ہے۔

بعدازاں براھمدگ بگٹی، مھران مری اور جاویدمینگل کے درمیان رسمی سیاسی اتحاد کے اعلان کے بعد، استادواحدکمبر کے مضمون نے اس واضح سیاسی صورتحال کی تشریح کی ۔

استاد واحدکمبر ماضی میں سرداروں کے کردار پر نہ خود تنقید کرتے تھے اور نہ ہی اس طرح کی تنقید کو برداشت کرتے تھے بلکہ وہ اپنی پارٹی سے وابستہ لکھاریوں کو سخت تنبیہ کے ساتھ ہدایت کرتے تھے کہ وہ ھیربیارمری پر تنقید سے گریز کریں ۔وہ ہمیشہ بلوچ آزاد پسند تنظیموں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کا داعی رہے ہیں، انہوں نے رابطہ کاری کے ذریعے آپسی تعلقات کو بہترکرنے کی بارہا کوشش کی ۔اس لیے ان کا مضمون پارٹی کے اندر بھی غیرمتوقع مندرجات پر مشتمل، قرار دیا گیا ۔رواں تحریک میں پہلی مرتبہ قبائلی آزادی پسندوں کے مقابل غیرقبائلی سوچ کو اس سطح پر بیان کیا گیا ہے ۔استاد نے قبائلی سوچ اور سرداروں پر براہ راست تنقید کرتے ہوئے تنظیمی اہمیت پر زور دیا۔ایک ایسی تنظیم جہاں ” جمہوری مرکزیت ”کی بنیاد پر قائم ادارے مستحکم اور فرد واحد کی اجارہ داری نہ ہو۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کا ابتدا ہی سے یہی نکتہ نظر رہا ہے کہ بلوچستان کی آزادی کے بعد قبائلی سوچ کو بالادستی حاصل نہ ہو بلکہ ایک جمہوری ریاست میں عوام کو آزادی، برابری اور انصاف میسر ہو۔

تین بلوچ مسلح تنظیمیں اشتراک عمل پر متفق

بی این ایم نے شہیدواجہ غلام محمدکی قیادت میں خانگی معاملات میں مصلحت پسندانہ سیاست کی جو ان کی شہادت کے بعد ھیربیار اور باباخیربخش کے درمیان اختلافات تک، بی این ایم کی پالیسیوں کا حصہ رہی کہ آزادی سے قبل عام بلوچ اور سرداروں کے درمیان اختلافات کو دبایا جائے اور بلوچ قوم کو ” بلوچستان کی آزادی کے نکتے ” پر متحد رکھا جائے ۔ یہ غیررسمی یک نکاتی اتحاد کا بیانیہ تھا کہ ” بلوچستان میں ماسوائے قومی غلام کا کوئی کلاس نہیں، سردار، رئیس زادے اور عام بلوچ سب کے سب قومی اختیار سے یکساں محروم اور غلام ہیں ۔”

ھیربیار کی طرف سے دیگر تنظیموں خاص طور پر بی این ایم اور اس سے وابستہ تنظیموں کی بھاگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوششوں سے عام سیاسی کارکنان کے صفوں میں انتشار اور خدشات پیدا ہوئے جس کا نتیجہ بی این ایم کی پالیسیوں میں تطہیر اور خودانحصاری کی صورت نکلا۔بی این ایم کو ماضی میں ھیربیار کی طرف سے مدد حاصل تھی جس سے پارٹی اپنی پالیسیوں کو ھیربیارمری کے عمل سے ہم آہنگ رکھنے کی کوشش کرتی تھی ۔بی این ایم کے پاس ماضی میں کوئی علیحدہ خارجہ پالیسی نہ تھی بلکہ اس پر ھیربیار کو مکمل اختیار دیا گیا تھا۔

ھیربیار کے غیرمتوقع رویے نے بلوچ سیاست کو موجودہ نہج پر پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ بی این ایم کو ہی ہوا کہ اس کے سیاسی ادارے غیرتنظیمی شخصیات کے اثرات سے آزاد ہوئے لیکن سیاسی بنیادوں کی بجائے، خواہشات اور نیک تمناؤں کی بنیاد پر بلوچ آزادی پسندوں کے درمیان اتحاد کا نعرہ سیاسی اور عوامی حلقوں میں اب بھی مقبول ہے۔اکثریت کسی بھی حال میں اتحاد کا خواہاں ہے اور جیسے تیسے بھی ہو تمام آزادی پسندوں کو ایک پلیٹ فارم پر دیکھنا چاہتی ہے۔

اشتراک عمل اور جنگ بندی، بدلتی بلوچ سیاست – دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

سن دوھزار چودہ تک لیڈرشپ یہ بتانے سے کتراتا رہا کہ ان کے درمیان اختلافات کس بنیاد پر ہیں ۔ایک گروپ آپسی غیرنظریاتی معاملات کو لے کر پروپیگنڈہ بازی میں سبقت لے گیا۔کسی تنظیم میں جہاں کوئی کمزوری تھی اسے ہدف بنا کر لوگوں کو دوسری تنظیموں سے بدظن کرنے کی ہرممکن کوشش کی گئی یہاں تک کہ بی ایل اے نے ” بابا خیربخش مری ” کی حمایت یافتہ یوبی اے کے خلاف باقاعدہ جنگ چھیڑ دی، کئی لوگ قتل اور زخمی ہوئے اوربہت سے لوگوں نے تحریک سے علیحدگی اختیار کی ۔

بی ایل اے کے پاس کوئی منصوبہ تھا، ناں نیا نظریہ اس لیے انتشار کی سونامی برپا کرنے کے علاوہ وہ دوسری تنظیموں کی حقیقی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھانے میں ناکام رہی بالآخر اس کی کلہاڑی کا پل کمزور دستے سے پھسل کر اس کے اپنے پاؤں پر گرا اور بی ایل اے جیھند اور آزاد کے درمیان منقسم ہوگئی ۔

سرداری سیاست نے اس سارے دورانیہ میں اس بات کو سمجھنے کی بہت کم کوشش کی کہ ان کی کامیابی اور مقبولیت ان کی قبائلی حیثیت کی بجائے بلوچ قومی تحریک سے جڑے رہنے کی وجہ سے ہے ورنہ ان کے علاوہ بھی بلوچستان میں طاقتور سردار موجود ہیں، یہاں تک عطاء اللہ جیسے بزرگ کو بھی بلوچ عوام میں وہ مقبولیت حاصل نہیں جو آزادی پسند رہنماؤں کو حاصل ہے۔انتہائی جبر اور شدیدریاستی محاصرے کے باوجود بلوچ پاکستان سے نجات کو ہی بلوچ قومی بقا کا واحد راستہ مانتے ہیں ، جو بھی اس راستے پہ ہوگا اس کو بلوچ قوم کی حمایت حاصل ہوگی ۔

لیکن اس سارے منظر نامے میں جو بات سمجھنے کی اور سمجھانے کی ہے وہ یہ ہے کہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک ایک نکتہ اتصال بھی رکھتا ہے اور تضادات کا حامل بھی ہے۔آزادی کی قومی تحریکوں میں عموما تمام طبقات کی نمائندگی ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئے ۔دنیا میں کئی سیاسی اورسماجی نظریات موجود ہیں ان کے اثرات بلوچوں پر بھی ہیں ہر ایک اپنے نظریات کی ترویج بھی چاہتا ہے۔ سیاسی قوت کو بڑھانے اور مقتدر رہنے کی کوشش اور خواہش مثبت عمل کے طور پر قابل قبول ہیں مگر ہم ان ہی کو لے کر مخمصے کا شکار ہیں۔نچھلی سطح کے کارکنان کے سوالات کا جواب دینے کی بجائے ہم ان کے دباؤ میں آکر “اتحاد” اور “تضادات” کے موضوع پر مقبول رائے سے ہم آہنگ بیانیہ کی تشہیر کرتے ہیں۔ علمی اور سیاسی مباحث کی تشنگی ہر سیاسی یونٹ میں حددرجہ موجود ہے یا پھر ہر ایک اپنے سرکل کے مزاج کے مطابق ایک “رائے” کا اسی لب و لہجے اور ترکیب و ترتیب میں اظہار کرتا ہے جس سے اس کے سرکل کے دوست خوش ہوتے ہیں، یہ مزاج شناسی کا عجیب گُر ہے مگر یقین جانیں یہ وقتی طور پر ایک محدود حلقے تک ہی کارگر رہے گا، ایک نظریاتی جماعت جامع سیاسی نصاب کے ساتھ اپنے کارکنان کی فکری اور نظریاتی تعمیر کرتی ہے ۔اس کا ہر یونٹ ایک نظریاتی اسکول ہوتا ہے ۔کیا استاد واحدکمبر کے مندرجات میں اس بارے میں بھی اشاریہ ہے؟

میری سمجھ کے مطابق ایک نظریاتی استاد کے طور پر انہیں خودتنقیدی سے گھبرانا نہیں چاہئے اور انہوں نے اپنے مضمون میں جس طرح لکھا ہے کہ بلوچ قوم کی ضرورت ایک ایسی سیاسی تنظیم ہے جسے ” جمہوری مرکزیت ”اصولوں کی بنیاد پر چلایا جائے۔بی این ایم کا آئینی ڈھانچہ بھی بنیادی جمہوری اصولوں کی بنیاد پر استوار ہے مگر ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے ہمارے پاس اصلاحی عمل کے علاوہ بھی کرنے کو بہت سے کام ہیں ۔اب وہ وقت آچکا ہے کہ بی این ایم ان تضادات کو ہر فورم پر بیان کرئے اور اس نکتہ اتصال کو بھی واضح کرئے جو ہمارا دوسری پارٹیوں کے ساتھ نکتہ اشتراک بن سکتا ہے ۔

سیاسی رویوں کی آبیاری کی جائے، ماضی کی غلطیوں سے اجتناب کیا جائے کہ بی این ایم اتحاد کے نام پر دوسری پارٹیوں کے لیے لاؤنچنگ پیڈ کے طور پر استعمال ہو نہ ہی کسی غیرمتعلقہ کردار کی پروجیکشن کی جائے اور سب سے بڑھ کر بلوچوں کی سب سے بڑی پارٹی کو سنبھالنے کے لیے “انٹراپارٹی ڈسکیشن” کو رواج دیا جائے تاکہ مرکزی فیصلوں پر نچھلے اداروں کا اثر ہو، تائید حاصل ہو اور مرکزی پالیسی پر اختلاف کی گنجائش نہ رہے۔

ہمارے ایک بگٹی دوست نے فنانشل ٹائمز کے رپورٹ اور چین کے ساتھ براھمدگ بگٹی کے مذاکرات کی دبی خواہش پر تبصروں پر اختلاف رکھتے ہوئے، نہایت شایستگی کے ساتھ مکالمہ کیا ۔جو ایک اچھی روایت ہے کہ ہم اپنے مشترکہ معاملات پر باہمی تنقید کرتے ہیں، صحت مندمکالمے کے ذریعے ہی ہم ایک خوبصورت سیاسی ماحول بنا سکتے ہیں۔ان کی خواہش ہے اور شاید بہت سے دوسرے دوست بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارے فطری تفرقات سے چھٹکارہ پاکر ہی ہم کامیاب ہوسکتے ہیں، مگر میں سمجھتا ہوں مسئلے کی جڑ یہی ہے کہ ہم ان اختلافات سے چھٹکارے کی کوشش کررہے ہیں، ہم ایک دوسری کی تنظیمی، سیاسی، لسانی، قبائلی، نسلی اور علاقائی شناخت مسخ کرنے کے درپے ہیں اور ان کو قومی یکجہتی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ بیٹھے ہیں حالانکہ ان ہی سے ہمارے قومی ڈھانچے کی تشکیل ہے، سماجی تخریب جبر سے کی جائے تو اس کا ردعمل چیزوں کو بدشکل بنا دیتا ہے۔

ہم اپنے لسانی، سیاسی، قبائلی، نسلی اور علاقائی اختلافات کو سمجھنے اور ان کو قبول کرنے کی کوشش کریں۔ایک جمہوری معاشرے کی بنیاد اسی اصول پر رکھی جاتی ہے کہ اختلافات سے اتفاق کیا جائے گا کہ ہاں ہمارے درمیان اختلاف موجود ہیں لیکن ایک قوم ہونے کی وجہ سے ہمارے مشترکہ سیاسی مفادات بھی ہیں جہاں ہمارے درمیان عمرانی معاہدہ ضروری ہے۔

بی آراے، یوبی اے اور لشکربلوچستان کے درمیان اتحاد، یوبی اے اور بی ایل اے کے ایک دھڑے کے درمیان جنگ بندی حالیہ دنوں میں ہونے والے مثبت پیشرفت ہیں، ان کو سراہنا چاہئے مگر بی این ایم کو اپنی پالیسیوں اور نظریات کی تشہیر میں بھی مزید مصلحت آمیزی کی ضرورت نہیں ۔ایک دوسرے کی حیثیت کو قبول کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ ہم خانگی سیاست سے تنقید کے عنصر کو ختم کردیں اور ایک دوسرے کی غلطیوں پر چپ سادھ لیں ۔ایک دوسرے کو متوازن رکھنے کی ذمہ داری بھی ہماری ہے، جہاں ضرورت ہو ہم مثبت سیاسی دباؤ کو بھی استعمال میں لائیں، اپنے اختلافات کا کھل کر اظہار کریں اور اتفاقات کو واضح کریں۔