مخبروں کے بابت پالیسی پر نظرثانی
ساگرگوادری
دی بلوچستان پوسٹ کالم
دنیا کے زیادہ تر لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان ایک مکار اور چالباز ریاست ہے لیکن بلوچ جہد کار جس ملک سے دشمنی کررہے ہیں وہ یہی پاکستان ہے۔ بلوچوں کو پاکستان سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے، بلکہ پاکستان نے بلوچوں کے ملک بلوچستان پر قبضہ کرکے ان کے ساحل وسائل کو لوٹنا شروع کیا، تب بلوچ اپنے وطن کی آزادی اور اس پر اختیار کیلئے پاکستان کے دشمن بن گئے، کیونکہ بلوچ اپنی حق کی بات کرتے ہیں حق مانگنا کوئی جرم ہے نہ گناہ ہے۔
بلوچوں کی یکجہت طاقت ایک بڑی ریاست کو کمزور کر سکتی ہے اور اسے ہرا بھی سکتی ہے کیونکہ اتحاد خود ایک طاقت ہے، جس کا اندازہ کسی کو نہیں۔ آج پاکستان اسی اتحاد کی ڈر سے بلوچوں کے اندر ہزارہا سازشیں کررہا ہے اور دوریاں پیدا کررہا ہے۔ کسی کو اغوا کرکے پھر ان کے اہل و عیال کو دھمکیاں دیتے ہیں یا انہیں ان کے اہلخانہ کو رہا کرنے کیلئے جہد کے خلاف استعمال کرتی ہیں تاکہ انہیں آسانی سے استعمال کرسکیں اور انہیں جہدکاروں کے ہاتھوں مروادیں، جو اس کے اپنے علاقے کے ہوں اور بلوچ کا قاتل بلوچ کے نام پر ظاہر ہوں، تاکہ قوم میں انتشار پیدا ہو جائے، نادان لوگ آسانی سے دشمن کی باتوں میں آکر مخبریاں کرتے ہیں اور پھر سرمچار غداری کرنے والوں کو مارتے ہیں۔
پاکستان اگر کسی کو نہیں مار سکتا ہے، تو اسے بلوچ کی ہاتھوں مروانے کی کوشش کرتا ہے، جیسا کے کوئی تیسری فریق ہو آیا وہ بلوچ کی شکل میں ہو یا پنجابی پٹھان کی جو کہ دشمن کے لوگ ہوں، پاکستان انہیں بلوچوں کے خلاف استعمال کرکے عام لوگوں کو مرواتا ہے۔
جب ایک عام آدمی بے گناہ مارا جائے، تو ظاہر ہے کہ ان کے بھائی یا رشتہ دار بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں، وہ کہیں نا کہیں کسی کی مدد کا انتظار میں ہوتے ہیں اور دشمن خود جاکر انہیں ٹاسک دیتا ہے کہ فلانا شخص کو مار دو تمہیں پیسہ بھی دینگے اور تمہارے بھائی یا رشتہ دار کا بدلہ بھی پورا ہو جائے گا کیونکہ دشمن تو چاہتا ہے کہ کچھ ایسا کروں کہ بلوچ آپس میں لڑیں تاکہ میرا راستہ صاف ہو کیونکہ جب بلوچ اپنے بلوچ کا دشمن بن جائے تو سمجھو خانہ جنگی شروع ہوجائے گا اور خانہ جنگی قوم و قومی تحریک کیلئے نقصان دہ ہے۔
پاکستان اپنی اس سازش میں باقاعدہ کامیاب ہورہا ہے لیکن بلوچ جہد کار اپنے پرانے ڈسپلین کے ساتھ وہی طرز و طریقہ استعمال کررہے ہیں جو کہ کئی سال پہلے سے جاری تھے، کچھ بدلنے کی کوشش میں نہیں ہیں، جب میں کہوں کہ فلانہ شخص مخبر ہے تو بغیر انفارمیشن کے اسے مار دیا جاتا ہے کہ فلانہ شخص نے اسے مخبر کہا تھا، ذرا سوچو ہو سکتا ہے یہ کسی کا ذاتی دشمنی کا معاملہ ہو، لیکن یہ نہیں سوچتے ہیں کہ فلانہ شخص غلط ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ انکے اعتبار کا بندہ ہے۔اسی کی وجہ سے معاشرے میں چار پانچ اور مخبر پیدا ہوجاتے ہیں۔
ہر چیز کا حل موت نہیں ہے، ہاں اگر غداری کی سزا موت ہے، تو صحیح لیکن جہاں پر تمہیں معلوم ہے کہ مرنا اور مارنا ہمارے تحریک کو نقصان دے رہی ہے، تو بہتر ہے کوئی نیا حکمت عملی اپنایا جائے تاکہ دشمن کو ساتھ دینے کی بجائے عوام اپنے جہدکاروں کا ساتھ دے، دشمن اپنئ ناپاک سازش میں کامیاب نہ ہوجائے، بلوچ عوام ابھی تک دشمن کو قبول نہیں کرتا ہے اور دشمن کو قبول کرنا بھی نہیں چاہتا ہے، لیکن خدارا اسے مزید دشمن کی طرف دھکیلنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو تحریک کمزور ہو سکتا ہے اور بلوچ کا دشمن پاکستان نہیں بلکہ بلوچ خود ہونگے اور پھر ہر طرف تباہی کے سوا اور کچھ نہیں بچے گا، جب دونوں طرف تباہی ہو تو قوم مٹ سکتا ہے۔
ذرا سوچو! ہمیں اپنی قوم اور قومی پہچان کو مٹانا نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنی قوم کو زندہ رکھنا ہے، ہمیں اپنی سرزمین کو آزاد کرنا ہے اور پاکستان کے وجود کو مٹانا ہے۔ ایک ریاست کے ساتھ جنگ لڑنا آسان نہیں ہے، بندوق کے ساتھ دماغ کو بھی استعمال کرنا ہوگا۔
پاکستان کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونا ہے بلکہ دوسرے لوگوں کو پاکستان کی حقیقت کو بتانا ہے کہ پاکستان کا حقیقت کیا ہے۔